عدت میں نکاح ہو سکتا ہے، یک ایڈمنسٹریٹو آرڈر جوڈیشل ریلیف لینے سے نہیں روک سکتا : اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران عدت نکاح کیس میں رجسٹرار آفس کے اعتراض ختم کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اپیلوں کو یکجا کردیا جبکہ عدالت نے خاورمانیکا کو نوٹس جاری کردیے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہو سکتا ہے جج کی کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دوران عدت میں نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواست میں بشریٰ بی بی مؤقف اپنایا کہ سیشن کورٹ میں زیرالتواء سزا معطلی کی درخواست پر ہائیکورٹ فیصلہ کرے۔

عمران خان نے درخواست کی کہ کیس واپس بھیج کرسیشن جج شاہ رخ ارجمند کومحفوظ فیصلہ سنانے کا حکم دیا جائے، دوسری صورت میں اسلام آباد ہائیکورٹ خود اپیل سن کر فیصلہ کرے۔

رجسٹرارآفس نے اس درخواست پر اعتراض عائد کیا ہے کہ سیشن کورٹ میں معاملہ زیرِ التواء ہونے پر ہائی کورٹ کیسے سماعت کر سکتی ہے؟

دورانِ سماعت پٹیشنرز کی جانب سے سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سوال کیا کہ اس درخواست پر کیا اعتراض ہے؟ جس پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں حقائق بتاتا ہوں کہ اس عدالت سے کیوں رجوع کیا ہے، ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر جوڈیشل ریلیف لینے سے نہیں روک سکتا۔

خاور مانیکا سیکیورٹی حصار میں پیش

اس موقع پر خاور مانیکا سیکیورٹی حصار میں عدالت پہنچے، گزشتہ سماعت پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے خاور مانیکا پر حملہ کیا تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ سیشن جج کو واپس معاملہ بھجوائیں یا ہائی کورٹ خود سن لے؟

عمران خان اور بشریٰ بی بی کے سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر پہلے سماعت کی جا رہی ہے، چیف جسٹس نے ایڈمنسٹریٹو آرڈر کیا جو ہمارے پاس نہیں ہے، تین ماہ کی مسلسل سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ ہوا تھا جو نہیں سنایا گیا، 29 مئی کو سیشن جج نے فیصلہ سنانے کے بجائے چیف جسٹس کو رپورٹ بھجوائی، دلائل مکمل ہونے کے بعد صرف فیصلہ آنا باقی تھا، 29 مئی کو کمپلیننٹ نے عدالت میں آ کر شور مچایا اور عدالت پر عدم اعتماد کیا، 23 مئی کو سیشن جج نے کہا 29 مئی کو فیصلہ سنائیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا دلائل 23 مئی کو مکمل ہو چکے تھے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 29 مئی کو شکایت کنندہ نے تحریری طور پر جج پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا؟ جس پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکیل نے جواب دیا کہ 29 مئی کو تحریری درخواست نہیں دی لیکن اس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست دی جو مسترد ہو گئی تھی، جج شارخ ارجمند نے خاورمانیکا کی پہلی کیس منتقلی کی درخواست مسترد کی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا سیشن عدالت کا وہ آرڈر چیلنج کیا گیا تھا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ نہیں، وہ آرڈر چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو، جب جج خود کیس سے الگ ہوجائے تو پھرکیا دوبارہ اسے بھجوانا مناسب ہے؟ ۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 16 جنوری کو اس کیس میں فرد جرم عائد ہوئی، یکم فروری کو شہادتیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو دو دن میں مکمل ہو گیا، 2 فروری کو رات گئے تک جیل سماعت میں چاروں گواہوں کے بیانات مکمل کر لیے گئے، 3 فروری کو عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو سزا کا فیصلہ سنا دیا، سزا کے خلاف اپیل 23 فروری کو دائر کی گئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دوسری درخواست میں بھی یہی استدعا ہے؟ جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ بشری بی بی کی جانب سے درخواست قدرے مختلف ہے۔

بشری بی بی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے کہا کہ بشری بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی، سیشن کورٹ میں اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ سزا معطلی کا حکم جاری کرے، خاتون پٹیشنر چاہتی ہے کہ اسے ریلیف دیا جائے۔

بشری بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے اپیل منظور کرتے ہوئے سزا معطلی کی استدعا کی۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کی درخواست پر خاور مانیکا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 13 جون تک سماعت ملتوی کردی۔

محفوظ فیصلہ کیوں نہ سنایا گیا؟

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے 23 مئی کو دوران عدت نکاح کیس میں سنائی گئی سزا کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 29 مئی کو سنایا جانا تھا۔

تاہم 29 مئی کو سیش جج شاہ رخ ارجمند نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی مزید سماعت سے معذرت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔

اپنے خط میں جج شاہ رخ ارجمند نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر تھیں لیکن کیس میں فریق خاور مانیکا نے مجھ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، عدالت ان کی عدم اعتماد کی درخواست ایک بار پہلے بھی خارج کرچکی ہے، دوبارہ عدم اعتماد کے اظہار کے بعد اپیلوں پر فیصلہ سنانا درست نہیں ہوگا، لہٰذا مذکورہ اپیلوں کو کسی اور عدالت میں منتقل کیا جائے۔

جج شاہ رخ ارجمند کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے 3 جون کو دوران عدت نکاح کیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا کی عدالت کو ٹرانسفر کردیا تھا۔

کیس کا پسِ منظر

واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔

خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔

خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔

انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔

خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔

درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔

خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔

11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔