سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ، کل سنائے جانے کا امکان

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرصدارت فل کورٹ کا مشاورتی اجلاس ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، جو کل سنائے جانے کا مکان ہے۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت عدالت عظمٰی کے فل کورٹ بینچ کا مشاورتی اجلاس جاری ہے، اجلاس میں فل کورٹ کے 13 ججز شامل ہیں۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق ججز کے اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر مشاورت کی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلے کے حوالے سے آج فل کورٹ ججز کا اہم اجلاس طلب کیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور چیف جسٹس نے کہا تھا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے۔

خیال رہے کہ عام انتخابات کے بعد مارچ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 1-4 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس جماعت نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ یہ نشستیں پارلیمنٹ میں موجود دوسری جماعتوں کو تقسیم کردی جائیں گی۔

علاوہ ازیں 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی استدعا مسترد کردی تھی جس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اپریل میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔