مژدہ برائے سبکدوشان

نہایت خلوص نیت سے یہ دلی خواہش ہے کہ جامعات کے ریٹائرڈ ملازمین کے پنشن کے مسئلے کے حل کے بارے میں سرکاری حلقوں کے حوالے سے جو مثبت خبر منظر عام پر آئی ہے وہ سچ اور درست ثابت ہو کیونکہ پنشن کے مسئلے نے بالخصوص پشاور کی یونیورسٹی جیسی قدیم درسگاہ میں گھمبیر شکل اختیار کر لی ہے۔ مالی سال 2022-23ءاور پھر رواں مالی سال کے بجٹ میں بالترتیب 17.50 فیصد اور 10 یا 15 فیصد کا جو اضافہ کیا گیا اس کے نصف سے بھی زائد بقایاجات تاحال جامعہ پشاور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی قدرے پرانی یونیورسٹیوں کے ذمے واجب الادا ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پہلے صرف حاضر سروس ملازمین احتجاج کرتے تھے لیکن اب ان کے دھرنوں‘ ریلیوں اور نعروں میں پنشنی خواتین و حضرات بھی شامل ہو رہے ہیں کیونکہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق یہ بے چارے اپنی عمر کے ان آخری ایام میں جب یونیورسٹی کے ٹریژرری سیکشن اور ساتھ ہی بینکوں میں جا جا کر تھک جاتے ہیں تو پھر دوسرا کوئی چارہ تو نظر نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت نے پنشن کے مسئلے کے حل کا فیصلہ کرتے ہوئے یونیورسٹی سے پنشن بقایاجات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں جو کہ جامعات نے بڑی خوشی سے فوری روانہ بھی کر دی ہیں‘ ساتھ ہی یہ بات 
باعث اطمینان ہے کہ مسئلے کو دیکھنے اور جانچنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ پرانی یونیورسٹیوں میں سے صرف پشاور یونیورسٹی کی پنشن ادائیگی کا ماہانہ بجٹ 12 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ دو سال کے اضافے کے نصف بقایاجات کے ساتھ ایک خطیر بجٹ ریٹائرڈ ملازمین کی گریجویٹی کے کروڑوں روپے کی ادائیگی کے لئے بھی درکار ہیں‘ ویسے ریٹائرڈ ملازمین پنشن کے مسئلے سے جڑی پریشانیوں میں پہلے تو تنہا تھے لیکن چونکہ حاضر سروس ملازمین کو بالآخر یہ احساس ہوا کہ پنشن تو کل ان کا بھی مسئلہ ہو گا لہٰذا اب اپنے احتجاج میں پنشنرز کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں‘ ریٹائرڈ ملازمین نے 30 سے لے کر 40 سال تک اپنی زندگی کا قیمتی توانا حصہ ملازمت میں گزار دیا ہے اور اس وقت ان میں اکثر یا تو معذور اور دائمی بیمار ہیں یا اولاد سے یا نیک اولاد سے محروم ہیں لہٰذا ان کی خدمت کا صلہ انہیں داد رسی کی شکل میں ملنا چاہئے۔ دراصل پنشن کا مسئلہ ایسا بھی نہیں کہ جس کا حل ممکن نہ ہو مگر احساس 
ذمہ داری اور قدرے قربانی کی ضرورت ہے۔ پنشن انڈومنٹ فنڈ کے بارے میں باتیں تو ایک عرصہ سے سننے میں آتی رہی ہیں مگر عملی کام بالکل بھی سامنے نہیں آیا‘ پنشن انڈومنٹ فنڈ کے قیام کے لئے اگر حکومت‘ جامعات انتظامیہ‘ فیکلٹی اور غیر تدریسی ملازمین اگر اپنی تنخواہوں میں سے ماہانہ تھوڑا تھوڑا حصہ بھی پنشن فنڈ کے لئے مختص کر دیں اور ساتھ ہی یونیورسٹی کے ملک اور بیرون ملک مقیم سابق طلباءرفاعی اداروں‘ مخیر قومی اور بین الاقوامی شخصیات اور اقوام متحدہ سے منسلک غیر سرکاری تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے تو پنشن کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو گا یہی وقت ہے کہ جبکہ خیبر پختونخوا حکومت پنشن کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو جامعات کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا ہو گا۔ ہر چند کہ عشرہ بھر سے صوبے کی پرانی یونیورسٹیوں کی مالی حالت دگرگوں ہے لیکن پنشن فنڈ جیسے گھمبیر مسئلے کے حل میں شریک ہونا کوئی اتنا بھاری مالی بوجھ نہیں ہو گا کہ جس سے یونیورسٹی دیوالیہ ہو جائے گی۔ کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے اور پھر جب حرکت اشتراک عمل کی شکل اختیار کر لے تو یقیناً ایسی حرکت رائیگاں نہیں بلکہ نتیجہ خیز ہو گی‘ لہٰذا اب بھی وقت ہے بلکہ یہ وقت ایک اچھا موقع ہے کہ پرانی یونیورسٹیاں جہاں سے ہزاروں ملازمین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ان کی پنشن ادائیگی ایک بھاری بوجھ ہے صوبائی حکومت سے مشاورت کر کے پنشن کے مسئلے کا مستقل حل یقینی بنا لیں۔