جامعہ پشاور کے اساتذہ کے انتخابات کی سرگرمیاں بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئیں‘ الیکشن میں بعض سیانوں کے اندازے یا فرضی ایگزٹ پول کے برعکس ففٹی ففٹی کی بجائے اکثریتی نشستیں فرینڈز گروپ نے جیت لیں‘ اس سے قبل ایک مہینے تک انتخابی مہم جاری رہی جس میں حسب طریق فرینڈز گروپ‘ انٹولیکچول فورم اور پروگریسیو گروپ نے اپنی تدریسی ڈیوٹی سے وقت نکال کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘ پیوٹا کی انتخابی مہم اگرچہ سیاسی مہم سے یکسر مختلف ہوتی ہے‘مطلب اس میں بلند وبانگ دعوؤں اور سبز باغ دکھانے والا طریقہ‘ گر یا حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی تاہم جامعہ اور اس کی فیکلٹی کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور اسے حل کرنے کا وعدہ ضرور کیا گیا‘ جامعات کی صورتحال سے واقف لوگوں سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ایک عرصہ سے سرکاری جامعات بالخصوص پرانی یونیورسٹیاں جن مسائل بلکہ پرانی حالت سے دوچار ہیں ان میں مالی ابتری اور ترقیوں سے اساتذہ کی محرومی جیسے مسائل سرفہرست ان مسائل نے سب سے زیادہ گھمبیر شکل جامعہ پشاور میں اختیار کرلی ہے کیونکہ جامعہ کے ماہانہ اخراجات45کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں‘جبکہ فیکلٹی میں کم از کم 30 فیصد نشستیں خالی پڑی ہیں وجوہات واضح ہیں یعنی حکومت کی طرف سے جو گرانٹ تین مہینے کیلئے دی جاتی ہے وہ بمشکل ایک مہینے کیلئے کافی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کئی مہینوں کے بجٹ اضافے سے مسلسل محروم چلے آرہے ہیں‘جہاں تک مجھے یاد ہے سال2018ء میں جب انٹولیکچول فورم پیوٹا میں برسراقتدار تھا تو فیکلٹی میں خالی اسامیاں مشتہر کی گئی تھیں جس میں اساتذہ کی ترقی اور تقرری عمل میں لائی گئی تھی مگر اس کے بعد پورے سات سال ترقی کا دروازہ بند رہا‘یہی حالت ایڈمن کیڈر کی بھی ہے جہاں پر ایڈمنسٹریٹو افسران کی کم از کم30 فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں اور کام ایڈہاک ازم کے تحت اساتذہ کے ذریعے چلایا جارہاہے‘میرا اپنااندازہ اور رائے تو اب بھی یہ ہے کہ ایڈمن کیڈر کی تمام خالی نشستوں کو اگر پر کیا گیا تو یونیورسٹی چلنے کے قابل نہیں رہے گی کیونکہ اخراجات دوگنا ہو جائینگے ہر چند کہ نان ٹیچنگ سٹاف کے نزدیک ایڈمنسٹریٹو پوسٹوں کو اساتذہ کے ذریعے چلانا ایکٹ کی نفی ہے‘ لیکن معاملہ فہم عاقبت اندیش لوگ اس اختلاف سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ اگر یونیورسٹی کو چلانا ہے تو اس کے سوا دوسرا کوئی طریق نہیں بہرکیف پیوٹا انتخابی مہم میں تینوں گروپوں نے اساتذہ برادری سے ان کے مسائل کے حل کے جو وعدے کئے ہیں اسے ایفا یا پورا کرنے کا بوجھ ایک بار پھر فرینڈز گروپ کے کندھوں پر آپڑا ہے‘البتہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ ایک تو پیوٹا ایگزیکٹیو باڈی ہیں تین نشستیں انٹو لیکچول فورم کے حصے میں آئی ہیں جبکہ دوسرا قابل ذکر امر یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایک برسرپیکار یا مدمقابل گروپ کی رسائی کے سبب صوبائی محکمہ تعلیم نے اساتذہ ترقی اور تقرری کو مشتہر کرنے پر جو روک لگائی تھی وہ پابندی اٹھالی ہے‘ پیوٹا الیکشن کا سب سے قابل ستائش پہلو یہ ہوتا ہے کہ پولنگ کے دن کا ماحول نہایت دوستانہ ہوا کرتا ہے جبکہ نتائج کو بڑی خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہوئے کسی گروپ کی طرف سے یہ الزام نہیں عائد کیا جاتا کہ دھاندلی ہوئی ہے بہر حال الیکشن کے بعد اب ایک بار پھر فرینڈز گروپ کا امتحان شروع ہو چکاہے بہتر ہو گا کہ یونیورسٹی اور فیکلٹی دونوں کے مسائل حل ہوں اور ان کوششوں میں تینوں گروپوں کی مشترکہ سعی سے حکومتی تعاون کا حصول بھی ممکن ہو جائے‘ تاہم یہ سب کچھ محض تجدید عزم سے ممکن نہیں ہو سکتا بلکہ مشنری جذبے کے تحت عزم نو کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی پیوٹا انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ایک خاتون امیدوار جو کہ منتخب بھی نہیں ہوئی کا یہ رویہ مجھے بہت پسند آیا کہ جس نے ووٹ دیا اس کا بھی بھلا جس نے نہیں دیا اس کا بھی بھلا۔
اشتہار
مقبول خبریں
اباسین کا ”ٹیکاو“
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
چند معروضات‘ جان بخشی کی اپیل
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
اور اب پھر تالہ بندی
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
الوداعی پذیرائی ہو تو ایسی
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
گرانٹ کی بیساکھی۔ کب تک؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے