کئی ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت چل رہا ہے اور کئی میں شخصی‘اگر توہم نے وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوری نظام چلانا ہے تو پھر ہمارے لئے انگلستان میں رائج نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے پھر اسے ہم کو من و عن اپنانا ہو گا‘آ دھا تیتر اور آ دھا بٹیر والی بات نہیں ہونی چاہئے‘اس کے پارلیمانی تقاضے پورا کرنے ضروری ہوں گے‘ پارلیمانی روایات کی پاسداری کرنا لازم ہو گا‘ انگلستان کے وزیر اعظم کی طرح ہاؤس آف کامنز کے فلور پر ہرہفتے منگل کے روز بنفس نفیس ہمارے وزرائے اعظم کو اپوزیشن کے ہر رکن کے سوال کا ذاتی طور پر جواب دینا ہوگا‘ قصہ کوتاہ برٹش پارلیمنٹ میں رائج ہر شے ہر طریقہ کار کو من وعن ہمیں بھی اپنی پارلیمنٹ میں اپنانا ہوگا اور اگرہم نے کوئی اور نظام اپنانا ہے تو پھر ہم کو اس نظام کی کاپی کرنا ہو گی کہ جو چین میں نافذ ہے اور جس سے چین میں بسنے والے ہر عام آدمی کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں‘ چین میں رائج سیاسی اور معاشی نظام کی طرز پر وطن عزیز میں سیاسی اور معاشی نظام نافذ کرنے میں آ خر قباحت ہی کیا ہے‘ اس سیاسی اور معا شی نظام نے بیس کروڑ انسانوں کو اتنے ہی عرصے میں غربت کی لکیر سے باہر نکالا ہے کیا یہ کہیں نوشتہ ہے کہ دنیا میں صرف مٹھی بھر لوگ ہی خدا کی نعمتوں سے استفادہ کریں اور کروڑوں لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑکر مر جائیں‘ان سوالوں کے جوابات کئی ماہرین معیشت نے اپنے اپنے انداز میں دئیے ہیں۔معیشت کے میدان میں چین کی بے پناہ حیرت انگیز ترقی کے پیچھے کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا بڑا ہاتھ ہے ہماری نئی نسل اب سیاسی طور پر کافی بیدار ہے وہ انگلستان اور چین میں رائج نظام معیشت سے اس لئے متاثر ہے کہ ان دونوں ممالک کے ارباب بست و کشاد نے اپنے اپنے انداز میں اپنے ملکوں میں ایسے سسٹم کا نفاذ کیا ہوا ہے کہ وہاں ہر عام و خاص کو روزگار ملتا ہے اس کا بیماری کی صورت میں علاج مفت ہے اس کے بچوں کی تعلیم مفت ہے اسکی آمدورفت کے واسطے سستا اور محفوظ ٹرانسپورٹ سسٹم موجود ہے ایک عام شہری بس ان سہولیات کے علاوہ اور خداسے کیا چاہتا ہے اندھا کیا چاہے دو آ نکھیں‘ بھلے یہ سہولیات اسے انگلستان والا نظام فراہم کرے یا چین والا‘جب امریک کا سوویت یونین کی دسترس سے درجن کے قریب وسطی ایشیا کے ممالک کو باہر نکال کر ابھی بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا‘ وہ اب ان ممالک میں اپنی مرضی کے افراد کو برسر اقتدار لانے کی کوشش میں ہے تاکہ کہیں ان میں وہ لوگ بر سر اقتدار نہ آ جائیں کہ جو پیوٹن کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوں جو آج کل بڑی تندہی سے روس کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش کر رہا ہے‘پاکستان اور روس کے درمیان پارلیمانی روابط میں فروغ ایک خوش آئند امر ہے‘ہم روس کے ساتھ جتنے نزدیک ہوں گے‘ہر لحاظ سے اتنا زیادہ ہمیں فائدہ ہوگا‘ماضی میں امریکہ کی اندھی تقلید میں ہم نے خواہ مخواہ ملک سوویت یونین کی دشمن خریدی تھی جس سے ہم نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا جس کا آج تک ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پنجاب کو فضائی آ لودگی سے پاک کرنے کے واسطے اس صوبے کی وزیراعلیٰ مختلف نوعیت کے جو اقدامات اٹھا رہی ہیں وہ قابل ستائش بھی ہیں اور قابل تقلید بھی
اشتہار
مقبول خبریں
دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
رمضان کا مہینہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اہم عالمی اور قومی امور پرایک نظر غائر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
بہترین سے بہترین
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ٹرمپ کی عجلت پسندی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
لارنس آف عریبیہ اور میرانشاہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ہاکی کی نشاۃ ثانیہ کب ہو گی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
خودکشی کو قانونی بنانے کا بل
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ٹرمپ کی تقریر کا محور
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ