وطن عزیز میں مہنگائی سے متعلق ذمہ دار دفاتر کے بڑے بڑے اعلانات اور خوش کن اعدادوشمار قابل اطمینان سہی تاہم برسرزمین صورتحال پہلے سے زیادہ پریشان کن ہو چکی ہے‘ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ افراط زر اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے پر قابو پالیاگیا ہے ‘وزیر خزانہ اس توقع کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر14 ارب ڈالر ہو جائیں گے جبکہ ٹیکس کی شرح 10.6 تک ہو سکتی ہے‘ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ رواں مالی سال میں شرح نمو2.6 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کرنے کے ساتھ اگلے مالی سال میں3.6 فیصد تک ہونے کی توقع ظاہر کر رہاہے ریجنل اکنامک آﺅٹ لک رپورٹ میں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ مانیٹری پالیسی میں نرمی سے معیشت کی بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں اس سب کیساتھ ادارہ شماریات کی رپورٹ میں مارکیٹ کی صورتحال سے متعلق جو اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں وہ پورے منظرنامے میں خوشخبری قرار دیئے جاسکتے ہیں تاہم ان اعدادوشمار اور مارکیٹ کی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو سب بے معنی رہ جاتا ہے نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں بیورو آف سٹیٹکس کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سالانہ مہنگائی کی شرح اپریل میں مسلسل چھٹے مہینے کم ہو کر0.28 فیصد پر آگئی جو مارچ میں0.7 فیصد تھی اعدادوشمار کے ساتھ بتایا یہ بھی جارہا ہے کہ یہ گزشتہ6دہائیوں کی کم ترین سطح ہے اسکے ساتھ معاشی ماہرین یہ توقع بھی کر رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخ میں کمی کے ساتھ آئندہ مہینوں میں مہنگائی مزید کم ہو سکتی ہے‘ اقتصادی سیکٹر کی جمع تفریق کے مطابق تو عام شہری کا گھریلو بجٹ حقیقی ریلیف کی جانب بڑھ رہا ہے‘ اس سب کے برعکس مارکیٹ میں ارضی حقیقت یہ ہے کہ عام شہری کیلئے کچن کے اخراجات پورے کرنا بھی ممکن نہیں رہا گوشت‘ چکن اور پھل غریب کی دسترس سے باہر ہیں‘ گرانی کے ساتھ انسانی صحت اور زندگی کیلئے انتہائی مضر ملاوٹ تشویشناک ہو چکی ہے‘ اس حوالے سے مارکیٹ میں کبھی کبھار کی بنیاد پر مارے جانے والے چھاپوں میں سامنے آنے والے حقائق انتہائی پریشان کن ہی رہتے ہیں درپیش حالات میں اعدادوشمار کی روشنی میں ثمر آور نتائج کا حصول صرف اسی صورت ممکن ہے جب مارکیٹ کنٹرول کیلئے کوئی فول پروف نظام دیا جائے کہ جس میں دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بزنس کمیونٹی کو بھی ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے۔
