قیام پاکستان کے بعد سے آج تک افغانستان کے ایوان اقتدار میں ظاہر شاہ جیسا بادشاہ بھی گزرا‘ نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل جیسے کمیونسٹ خیال کے مالک بھی اور طالبان جیسے اسلامی نظریات کے حامل افراد بھی۔ ان سب میں جو قدرے مشترک تھی وہ یہ تھی کہ وہ بھارت کے ایما پر فاٹا کے اندر شورش پھیلانے کی کوشش کرتے رہے‘ پر چونکہ فاٹا میں بسنے والے قبائل کی پاکستان کے ساتھ محبت لازوال تھی وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے فاٹا میں بعض سرکردہ مشران کو خریدنے کی کوششیں کیں‘ ان کو افغانستان کے اندر باغات اور مکانات الاٹ کئے‘ ان کے واسطے ماہانہ مشاہرہ مقرر کیا۔ پر اس قسم کے لوگ فاٹا کے عام آدمی کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا‘ یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل جب پنڈت نہرو نے فاٹا کا دورہ کیا تھا تو ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے وہاں پر ان کی دال گلنے والی نہیں کیونکہ ان کو اس دورے کے دوران قبائلیوں نے گھاس نہیں ڈالی تھی۔قومی سلامتی کمیٹی نے بالکل درست کہا ہے کہ بھارت کے ایما پر افغانستان دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے‘۔ وقت آ گیا ہے کہ افغانستان پر اقوام متحدہ کی سطح پر دباؤ ڈالا جائے‘ اور اس پر یک زبان ہو کر عالمی سطح پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں اور وہ اس وقت تک نہ ہٹائی جائیں کہ جب تک افغانستان اپنی سر زمین کو دہشت گرد تنظیموں سے پاک صاف نہ کردے اس ضمن میں ہماری وزارت خارجہ متحرک ہو کر اقوام متحدہ میں ٹھوس حکمت عملی پر فوراً عمل درآمد شروع کرے تو بہتر ہو گا۔اب آتے ہیں اپنے قارئین کرام سے کچھ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں‘پچھلے دنوں ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ایک جاننے والے نے بھیجی تھی‘ ویڈیو پشاور کے دلیپ کمار کی شادی کی تھی جو سائرہ بانو کے ساتھ بمبئی میں جسے آج کل ممبئی کہتے ہیں 1966ء میں قرار پائی تھی اس میں دلیپ کمار کو دولہا کے روپ میں سر پر پشاوری کلاہ لنگی پہنے گھوڑے پر سوار دلہن سائرہ بانو کے گھر کی طرف جاتے دکھایا گیا تھا اور بارات کے ساتھ ساتھ راجکپور کو بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے پیدل چلتے دکھایا گیا تھا یاد رہے کہ راج کپور کی جنم بھومی بھی پشاور تھی دراصل ماضی بعید میں جب پشاور شہر کے گرد ایک فصیل ہوتی تھی اور اس کے چاروں طرف سولہ دروازے ہوا کرتے تھے تو اس فصیل کے اندر مختلف محلوں میں ہی دلہن اور دولہا کے گھر ہوتے تھے بارات اکثر رات گئے روانہ ہوتی دولہا گھوڑے پر سوار ہوتا باراتیوں کے جھرمٹ میں بینڈ باجے والے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہوتے اور جب وہ دلہن کے گھر پہنچتے تو وہاں ان کی خاطر تواضع کھانے کے ساتھ کی جاتی۔اگر سردی کا موسم ہوتا تو پہلے میٹھی کشمیری چائے جسے عرف عام میں شیر چائے کہتے ہیں سے کی جاتی پھر نمکین اور میٹھے چاولوں کا دور چلتا جس میں قورمہ بھی شامل ہوتا اور روغنی روٹی بھی۔کھانے کا تمام سامان لکڑی سے بنے ہوئے ایک ٹرے میں رکھا جاتا جسے ہندکو زبان میں خونچہ کہتے عام طور پر ایک خونچہ کے چاروں طرف تین یا چار باراتی بیٹھ کر کھانا تناول کرتے‘ دلہن کو لانے کے واسطے دولہا خالی ڈولی بھی ساتھ لے جاتا جس میں بیٹھ کر رات گئے دلہن کو دولہا اپنے گھر لے جاتا‘اس ڈولی کو پہلوان نما چار پانچ افراد لمبے لمبے ڈنڈوں کی مدد سے اٹھا کر دلہن کو دولہا کے گھر لے جاتے کچھ اسی قسم کا انتظام دلیپ کمار کی شادی میں بھی کیا گیا دلیپ کمار چونکہ ایک کٹر پشاوری تھے انہوں نے بمبئی میں رہ کر بھی پشاور کی اس روایتی رسم کو ترک نہ کیا آج کل تو موٹر کاروں کا زمانہ ہے شادیاں ہوٹلوں میں ہو رہی ہیں اور ان کے روایتی انداز بدل چکے ہیں بارات کی رات یا پھر دوسرے دن ولیمے کے موقع پر دیگ میں پکے ہوئے نمکین اور میٹھے چاولوں کا مزہ ہی کچھ اور تھا گھنٹہ گھر پشاور کے اطراف میں چند بالا خانوں میں اس وقت کے مشہور گلوکار جنہیں عرف عام میں قوال کہا جاتا تھا کی رہائش تھی جن کو شادیوں میں اکثر مدعو کیا جاتا اور وہ بارات کی رات دولہا کے گھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اب نہ وہ بالا خانے رہے اور نہ وہ قوال۔
اشتہار
مقبول خبریں
فرق صاف ظاہر ہے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ بمقابلہ چین
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی ارادے کیا ہیں؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سکواش سے متعلق خوش کن خبر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
گم گشتہ شہر کی تلاش (حصہ دوم)
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اہم قومی و عالمی امور
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
بھارت کی آ بی جارحیت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
دنیا کے بدلتے رنگ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اہم عالمی اور قومی ایشوز کا ایک جائزہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
مصنوعی ذہانت کے خدو خال
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ