پانی، ڈیم اور بیراج ایک قومی مسئلہ

ملک میں پانی، ڈیموں اور بیراجوں کا مسئلہ کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ان میں بھارت کی جانب سے 1960کے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ اور غیرقانونی معطلی، پاکستان کے صوبوں کے درمیان شدید اختلافات، موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں تیزی سے اضافہ اور قومی سطح پر جامع آبی تحفظ اور نظم و نسق کی پالیسی کی عدم موجودگی شامل ہیں۔چونکہ پاکستان ایک زرعی معیشت ہے، اس لئے ملک کا 90 فیصد سے زائد پانی زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے، جو کہ ملک کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 20 فیصد اور لیبر فورس کو42 فیصد روزگار فراہم کرتا ہے۔25 کروڑ لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے پانی کی مستقل فراہمی انتہائی اہم ہے۔ تقسیم کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5000 مکعب میٹر سالانہ تھی، جو اب کم ہو کر 1000کیوسک فی کس سالانہ سے بھی نیچے آ چکی ہے‘ پانی کی دستیابی اور طلب کے درمیان خلاءہر سال بڑھ رہا ہے‘1991-92 کا آبی معاہدہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ضابطہ ہے‘ بدقسمتی سے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے معاہدے کی تشکیل کے وقت اس پر سنجیدہ توجہ نہیں دی‘صوبے کو 8.78 ملین ایکڑ فٹ پانی کا حصہ دیا گیا، مگر وہ اسے مکمل طور پر استعمال نہیں کر سکا‘ اس وقت غیر استعمال شدہ پانی پر سنجیدہ غور ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا گزشتہ 33 برسوں سے خیبر پختونخوا کے حصے کا پانی ضائع ہو رہا ہے معاہدے میں یہ شرط ہونی چاہیے تھی کہ جو صوبہ اپنا پانی استعمال نہیں کر پاتا، اس کی تلافی کے لئے وفاق وہاں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنائے گا، اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے بھی شامل کرے گا‘ یہ ایک بڑی کوتاہی تھی۔ پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت موسمیاتی تغیرات کے دوران بڑا مسئلہ ہے‘ پاکستان میں صرف 30 دن کا دریا کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ ایسے موسم والے دیگر ممالک میں کم از کم 120 دن کی سفارش کی جاتی ہے‘ تربیلا اور منگلا ڈیموں میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو چکا ہے‘جو خشک سالی کے دوران پانی کو محفوظ رکھنے اور سیلاب سے بچاﺅ کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے‘2001 میں، خیبر پختونخوا کے 24 اضلاع کے ناظمین کو اس وقت کے صدر پاکستان نے مدعو کیا۔ اس وقت میں خود بھی ضلع ناظم تھا‘ اس ملاقات میں خیبر پختونخوا میں کرم تنگی ڈیم پر بھی بات چیت ہوئی ‘آج تک اس پر کوئی عملی کام نہیں ہو سکا۔ وجہ سکیورٹی مسائل بتائی گئی‘ یہ ایک المیہ ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود ریاست اس اہم منصوبے کے لیے جگہ کو محفوظ نہیں بنا سکی۔دیامر بھاشا ڈیم (زندہ ذخیرہ 6.40 MAF) اور مہمند ڈیم (زندہ ذخیرہ 1.68 MAF) پر کام جاری ہے‘ مہمند ڈیم سال کے اختتام تک مکمل ہونے کا امکان ہے، جبکہ دیامر بھاشا ڈیم 2029 میں مکمل ہونے کی منصوبہ بندی ہے۔ دیگر مجوزہ بڑے ذخائر جیسے کہ اکھوڑی ڈیم اور سکردو ڈیم کی ابتدائی فزیبلٹی رپورٹس مکمل کی جا چکی ہیں۔ شیوک، شِیگر کے قریب مجوزہ کٹزارہ ڈیم ملک کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا جس کی مجموعی ذخیرہ گنجائش 35 MAF اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 16000 میگا واٹ ہوگی۔ کٹزارہ ڈیم، جو 860 فٹ اونچا ہے، کی تعمیر 2024 میں شروع ہوئی اور 2034 میں مکمل ہونے کا منصوبہ ہے‘ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد، دریائے سندھ کے نظام میں اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 72.9 MAF ہو جائے گی۔ 1991 کے معاہدے کے مطابق، اس میں خیبر پختونخوا کا حصہ 10.2 MAF ہوگا۔ اگر نئے ذخیرے نہ بنائے گئے تو خیبر پختونخوا کا غیر استعمال شدہ پانی 13.2 MAF سالانہ ہو جائے گا۔موجودہ قیمتوں کے مطابق، ایک MAF پانی کی قیمت 80 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے خیبر پختونخوا کو سالانہ 1056 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان نہ صرف اپنے ابتدائی حصے کا مکمل فائدہ اٹھا چکے ہیں بلکہ وہ مستقبل کے اضافی ذخائر سے بھی مستفید ہوں گے، جبکہ خیبر پختونخوا اپنا پہلا حصہ بھی مکمل استعمال نہیں کر پایا۔مستقبل کے آبی نظم و نسق کے منصوبوں میں کئی ڈیموں کی تعمیر و توسیع شامل ہے‘میں پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر فوری توجہ دینی ہوگی۔ مصنوعی جھیلیں تعمیر کی جائیں تاکہ پانی ذخیرہ کیا جا سکے، اور جنوبی اضلاع اور ڈیرہ اسماعیل خان کی زرخیز زمینوں تک پانی کی فراہمی کے لیے پمپنگ اسٹیشنز نصب کیے جائیں۔ یہ دوراندیشی آئندہ 30 سے 50 سال تک پائیدار آبی نظم و نسق کو یقینی بنائے گی، جو ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں، کرک، کوہاٹ اور دیگر جنوبی اضلاع جیسے شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں کے لیے کافی ہوگا۔صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں آبپاشی کے نظام کو وسعت دینے اور پانی ذخیرہ کرنے کے اضافی منصوبوں میں سرمایہ کاری پر بات چیت کرے۔ چونکہ کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا، اس لیے اس کی جگہ ایک بیراج تعمیر کیا جا سکتا ہے جس کی اونچائی 910 فٹ کے بجائے 830 فٹ ہو۔ اگر CCI سے منظوری ملے تو ایک مناسب چوڑائی والی نہر بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اس بیراج میں 32 گیٹ ہوں گے تاکہ سیلاب پر قابو پایا جا سکے، اور اس کی اونچائی پانی کو کشش ثقل کے ذریعے نیچے علاقوں جیسے ڈی آئی خان تک پہنچانے کے قابل بنائے گی۔ نہر کا بیس اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ وہ مستقبل میں 13 MAFپانی لے جا سکے۔میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ کالا باغ ڈیم کے مقام پر بیراج تعمیر کرنے کا مقدمہ بنائیں اور اسے CPEC-2 میں شامل کروائیں۔ تعمیراتی کام چینی انجینئرز کے سپرد کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے اپنے ملک میں 22,000 سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ چین کا سب سے بڑا ڈیم، تھری گورجز ڈیم، صوبہ ہوبی میں واقع ہے، جس نے اپنے پانی کے وزن سے زمین کے محور کو آدھا انچ تک جھکا دیا ہے۔مصنف سابق رکن قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)