جب لاک ڈاﺅن کھلا

ہمار ے وزیراعظم کو ہمیشہ غریبوں کا خیال رہتا ہے وہ کسی بھی طرح غریبوںکو بھوکا نہیںدیکھنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا سے بچنے کا واحد طریقہ جو بتایا جاتا ہے وہ لاک ڈاو¿ن کا استعمال ہے۔ یعنی لوگوں کو گھرو ںتک محدود کر دیا جائے تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مگر عمران خان صاحب اسے نہیں مانتے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم عوام کی ایک بڑی آبادی جو دیہاڑی دار مزدوروں پر مشتمل ہے اسے بھوکا مارنے کا اہتمام کر لیں گے‘ اس لئے کہ حکومت اس قابل نہیںکہ لاک ڈاو¿ن کے عرصے میں وہ مزدوروں کی روزی روٹی کا انتظام کر سکے‘ لاک ڈاو¿ن مسئلے کا حل نہیں ہے‘مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ جس میںیہی دیہاڑی دار مزدور بھی شامل ہیں ‘ان پڑھ ہے ۔ وہ ان پابندیوں کو نہیں سمجھتے جو کورونا سے بچنے کےلئے ضروری ہیں ‘اسی لئے اگر لاک ڈاو¿ن سرکاری سطح پر نہیں کیا جاتا تو کورونا کے پھیلنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں‘ جب آپ عوام کو کھلا چھوڑیں گے تو وہ کسی طرح کی احتیاط سے کام نہیں لیں گے اور جب آپ بغیر خود کو سنبھالے کھلم کھلا بازاروں میں نکلیں گے تو کورونا سے معافی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ابھی جو عید کے موقع پر پورے ملک میں لاک ڈاو¿ن کو ختم کیا گیا تو عوام جس طرح چھوٹے چھوٹے بچوںکو لئے کر بازاروں میں آئے وہ سب کے سامنے ہے‘ اور اس کے نتیجے میں انتیس مئی کو ملک میں کورونا کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد سامنے آئی اور اس دن ملک میں سب سے زیادہ یعنی 78 اموات ہوئیں‘ اور جو لوگ کورونا کا شکار ہوئے اس سے ہسپتالوں میںجگہ ہی نہیں رہی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا خدا پر پختہ یقین ہے اور یہ کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہے۔

 اس وجہ سے ہم بغیر کسی احتیاط کے بازاروں میں نکل کھڑے ہوئے اور یہی تو کورونا چاہتا تھا اس نے بھی جی بھرکر اپنے شکار کئے‘ اور عوام نے ہسپتال بھر دیئے اور قبرستان کا بھی جی بھر کر رخ کیا‘اس بلا سے بچنے کا واحدحل یہ ہے کہ گھر میںچھپ کر بیٹھاجائے‘ضرورتاً بھی جتنا میل ملاپ رکھیں گے اتنا ہی کورونا پھیلے گا۔ہماری جو عادات ہیں کہ ہم میلوں ٹھیلوں کا اہتمام بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور شادی بیاہ میں تو اکٹھا ہونا لازمی ہوتا ہے اسلئے کہ اگر کسی کے بچے یا بچی کی شادی میںشریک نہیں ہوتے تو گلہ الگ اور عمر بھر کی خفگی الگ اور اگر شریک ہوتے ہیں تو کورونا کا پیار الگ ‘اور مصیبت یہ ہے کہ اس ظالم بیماری کا کوئی علاج بھی ابھی تک معلوم نہیں ہوپایا‘ ہم بے چارے پاکستانی عجیب مصیبت میں پھنس چکے ہیں خصوصاً ہم کے پی کے رہنے والے کہ جو اپنے رسو م مےں بندھے ہوئے ہیں‘ کہ ہم کسی طرح انکار بھی نہیں کرسکتے اور یہ بھی کہ عید میلو ںسے بھی ہم اپنے بچوں کو نہیںروک سکتے بلکہ خود بھی ان میں جی بھر کر حصہ لیتے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ کورونا نے اس عید پر خوب خوب لوگوںکو گلے لگایا ہے‘ اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ اگر ہم لاک ڈاو¿ن کی طرف جاتے ہیں تو مزدور کے بچے مرتے ہیںاور اگر لاک ڈاو¿ن نہیں کرتے تو کورونا کا شکا ر ہوتے ہیں یعنی نہ پائے رفتن اور نہ جائے ماندن کا مسئلہ بنا ہوا ہے‘ اب صرف ایک طریقہ رہ جاتا ہے کہ اللہ کے حضور جھکا جائے اور گڑگڑا کر دعائیں کی جائیں کہ اللہ کریم اس آفت سے ہماری جان بچائے اور جب تک دعائیںمستجاب نہیںہوتیں تب تک احتیاط کو ہی عادت بنائیں۔

 اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘ اگر دیکھا جائے تو ہفتے دس دن کے لاک ڈاو¿ن سے کسی بھی مزدور کے یا اس کے بچوں کی اتنی اموات نہیں ہوں گی جتنی کہ لاک ڈاو¿ن کے بغیر ہم بازاروں اور گلیوں میں کورونا کا شکار ہوں گے ‘اگرچہ بعد از خرابی بسیار ایسا سوچا جا رہاہے مگر کہتے ہیں کہ اچھے کام کےلئے کوئی وقت دیر کا نہیں ہوتا‘ اگر اب بھی احتیاط حکومت کی طرف سے آئے تو بہترہی ہو گی ‘ ہم انفرادی طور پر اچھے کاموں کی طرف جانے والی قوم نہیں اور اگر اسی طرح چھوڑ دیا گیاتوخدشہ ہے کہ کورونا کے مریضوں میں روز افزوں اضافہ ہو گا۔