غذائی خودکفالت

 (روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ زمین کی حفاظت سے پاکستانی نسلوں کا تحفظ پوشیدہ ہے اور یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کی زمین میں نامیاتی مواد اور پودوں کےلئے غذائی اجزاءمیں کمی واقع ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے خبر دار کر رکھا ہے کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کے وسائل میں شدید کمی کے باعث کاشت کی جانے والی زمینوں کو خطرات لاحق ہیں‘کیمیائی تجزئیات کے مطابق پاکستان کی بیشتر زرعی قابل کاشت اراضی نوے فیصد نامیاتی مواد مادوں کی کمی کا شکار ہے اور اس میں پچاسی فیصد فاسفورس اور چالیس پوٹاشیم کی کمی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سبزی اور پھل کی حاصل ہونےوالی اقسام میں آئرن کی کمی پائی گئی ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی رقبہ تقریباً 80کروڑ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے صرف 22کروڑ ایکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جو مجموعی طور پر کل رقبے کا 25 فیصد بنتا ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف قابل کاشت رقبہ کم ہے اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے رہائشی علاقے میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے ، نت نئی آبادیوںکے رجحان سے زرعی زمین کو براہ راست خطرات لاحق ہیں! موسمےاتی تبدیلی اور دیہی ترقی کے فروغ کے سبب نمودار ہونےوالے چینلنجز سے نمٹنے کےلئے زمین‘ پانی اور انتظامی سطح پر غیر معمولی پالیسی مرتب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی کا واحد پیمانہ پانی کے شہری اور قدرتی ذخائر ہونے چاہئےں اور قدرتی وسائل میں اضافے اور استحکام کےلئے ملکی سطح پر پیداواری نظام کو بہتر بنانا ہوگا جس کو چھوٹے کسان بھی اپنا سکیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی کےلئے خوراک کی پیداواری ضروریات پوری کرنااس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے ، خاص کر ایسے حالات میں کہ جب سیلابوں نے زمین کی پیدواری صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔اس وقت تو سیلابی پانی جا بجا کھڑا ہے تاہم شدید موسموں کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی سیلاب کا سامناہوگا تو کبھی خشک سالی کا۔ایسے حالات میں ضروری ہے کہ زراعت کو ایسی بنیادوں پر استوار کیا جائے جو موسمیاتی تبدیلی کے عمل کے ساتھ موافق ہو اور مستقبل میں ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے لائحہ عمل میں زراعت کواہم مقام حاصل ہے ۔ کیونکہ سیلابوں سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے کو ہوتا ہے اسلئے اس شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس حقیقت کو اب سمجھنا ہوگا کہ جن حالات سے ملک اس وقت گزر رہا ہے اس کا سامنا مستقبل میں بھی ہوسکتا ہے اسلئے حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری اگر ایک طرف امداد دے کر اس مشکل سے پاکستان کو نکالنے میں مدد دے رہی ہے تو ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سرمایہ کاری کرکے عالمی برادری پاکستان میںزراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دے اور یہ ایسی سرمایہ کاری ہوگی جس کے ملک کی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اس حوالے سے یہ کہنا مشکل نہیں کہ غذائی خودکفالت کو اب ایک ترجیحی ہدف قرار دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ ایک طرف اگر سیلاب نے پاکستان میں زراعت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے تو دوسری طرف یوکرین اور روس کی جنگ نے بھی عالمی سطح پر غذائی خودکفالت کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اور دنیا پر واضح ہوگیا کہ کس طرح پوری دنیا چند ممالک کے خوراک کے ذخیروں پر انحصار کرتا ہے اور دوسری صورت میں اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔اب اس صورتحال کا کچھ تدارک ضروری ہے ۔غذائی خود کفالت کا ہدف اگر چہ اس وقت مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے تاہم اس سلسلے میں اگر کوششٰ کی جائے تو اس ہدف کا حصول ناممکن ہر گز نہیں۔