ستمبر 1965 ءکی یادیں

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ایم ایس سی پریویس سے پاس ہونے کے بعد فائنل میں داخلہ لیا تویکم ستمبر کو کلاسوں کا اجرا ءہوا‘ 31 اگست کو یونےورسٹی پہنچے تو یونےورسٹی کے ہاسٹل نمبر ایک میں کمرہ ملا ۔ رات دوستوں کےساتھ مل ملا کر اپنے کمرے میں سو گئے۔ دوسرے دن ڈیپارٹمنٹ گئے تو بہت سے دوست جن کا تعلق پشاور شہر سے تھا ان سے بھی ملا قات ہوئی ۔ پہلا دن تھا اس لئے پڑھائی وغیرہ تو واجبی سی ہی ہوئی ‘اساتذہ نے اپنے اپنے مضامین کے تعارف تک ہی بات کی۔کچھ دوست ابھی تک آئے نہیں تھے۔ خیر ایک دو دن گپ شپ میں گزر گئے‘چھ ستمبر کی دوپہر کی خبروں میں پتہ چلا کہ پاکستان پر حملہ ہو گیا ہے‘ ہندو دشمن واہگہ کے راستے لاہور پر حملہ آور ہو ا ‘ ایک دو یونٹس جو عموماً بارڈر پر ہوتی ہیں یا رینجرز کی ایک آدھ پلاٹون ہی دشمن کے سامنے تھی ۔ ایسی فورسز کے پاس ایمونیشن بھی اتنا نہیں ہوتا کہ دشمن کو روک سکے مگراللہ کے شیروں نے بی آر بی نہر سے پیچھے ہی دشمن کو نہ صرف روکا بلکہ پسپائی پر مجبو ر کر دیا۔ اب تو روز کے روز ہم ایک بجے اور شام آٹھ بجے ریڈیو کے ساتھ کان لگائے ہوتے تھے‘ ہاسٹل میں تو ریڈیو کسی کے 
پاس نہیں تھاالبتہ ہاسٹل کے باہر ایک کینٹین تھی جس پر ریڈیو تھاجس پر ہم جنگ کے حالات سنتے رہتے تھے خبریںحوصلہ افزاتھیں‘خصوصاً شکیل صاحب کی گنجیلی آواز میں خبریں اور بھی لطف دیتی تھیں۔ آٹھ یا نو تاریخ کو ( صحیح تاریخ یاد نہیں ) ہندوستانی ائےر فورس نے پشاور پر حملہ کیا سائرن بجتے ہی ہم لوگ باہر نکل کر گراو¿نڈ میں لیٹ گئے۔اتنے میں ائےرپورٹ کے چاروں جانب سے ائےر گنوں کے گولے ہوا میں جانے لگے۔ یوں لگتا تھا کہ سارا آسمان سرخ ہو گیا ہے ‘سرخ رنگ کے ٹریسرہوا سے واپس آ رہے تھے ‘بہت سے لڑکوں نے یہ خیال کیا کہ یہ بم ہیں جو ہندوستانی طیارے گرا رہے ہیں‘چونکہ ہماراتوکوئی تجربہ ہی نہیں تھا کہ بم کیا ہوتے ہیں اور گنوں کے ٹریسر کیا ہوتے ہیں۔گنوں کی تڑ تڑ کےساتھ ایک دو بڑے دھماکے بھی سنائی دیئے جو ہندوستانی جہازوں کے گرائے گئے بموں کی آواز تھی‘ایک بات یہ ہوئی کہ پشاور ائےر فورس کے اڈے کے متوازی مال روڈ ہے جسکی سڑک بھی کافی چوڑی تھی‘ہو سکتاہے کہ ہندوستانی پائلٹوں نے اسے ایروڈرم سمجھا ہو کہ ایک دوبم اس روڈ پر گرائے اور واپس چلے گئے ‘تھوڑی دیربعد کلیئرنگ سائرن بجا توہم لوگ واپس اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے‘دوسرے دن ائےر فورس کے ملازمین کے بچے جو ہمارے کلاس فیلو تھے ان سے رات کی کار گزاری کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک دو بم جو گرائے گئے وہ مال روڈ پر گرے اور ائےرپورٹ بالکل محفوظ رہا ‘ دوسرے دن کی خبروں میں یہ تو پتہ چلا کہ پشاور پر ہوائی حملہ ہوا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا جس دن ہوائی حملہ ہوا تھا اس دن ہمارے ہوائی اڈے پر جنگی جہاز بالکل سامنے کھڑے تھے اس لئے کہ انکے لئے ابھی ہینگروں کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی۔ حملے کے بعد اسکا احساس ہوا تو یونیورسٹی میں اعلان کیاگیا کہ لڑکے ائےرپورٹ جائیں اور وہاں پر ہوائی جہازوں کےلئے ہینگر بنانے میں مدد کریں‘یونیورسٹی کے تقریباًسارے ہی لڑکے جو وہاں موجود تھے دن بھر کےلئے ائےر پورٹ جاتے اور سار دن وہاں جہازوںکےلئے ہینگر بناتے ہمارے ساتھ جیل کے قیدی بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے جب تک جنگ رہی ہم روز ائےر پورٹ جاتے ا ور سارا دن وہاں مزدوروں کی طرح کام کرتے۔ ہینگروں کےساتھ ساتھ ایروڈرم کو بھی چوڑا کرنے کی ضرورت تھی اسلئے اس کام میں بھی ہاتھ بٹاتے۔