کھلوناپستول

 سن رہے ہیں کہ کھلونا پستول کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے گی‘ مگر پابندی تو کیا لگے کب لگے‘ ابھی توایسے کھلونا ہتھیار بن رہے ہیں کہ انجان آدمی کو دور سے اصلی معلوم ہو تے ہیں۔اگر کوئی گلی یا بازار میں لے کر نکل آئے او ر اداکاری کرے تو لوگ گھبرا کر دکانوں میں چھپ جائیں کہ پاگل ہے اور ہاتھ میں جدید اسلحہ ہے ‘یہ ہمیں گاجر مولی کے مول چھیل ڈالے گا بلکہ ان پلاسٹک کے پستولوں کےساتھ کئی وارداتیں ہو رہی ہیں ‘کسی کو دور سے دکھا دو اور قریب جا کر چپکے سے اس کی جیب میں سے جو ہو نکال ہو‘ ایسا ہو چکا ہے کئی بار ہواہے اب تک ہو رہاہے ‘عام آدم جس کو پستول طمانچوں کےساتھ رغبت نہیں اسے کیا معلوم کہ کون سا پستول اصلی کون سا نقلی ہے ‘بلکہ یہ پتا بھی نہیں کہ اگر اصلی ہے تو اس میں گولیاں بھی ہیں کہ نہیں بلکہ اندھیرے میں کسی کو شہر کی کسی گلی میں صرف اپنے خالی ہاتھ سے پستول بناکر انگلی کو پستول کی نالی کی طرح اس کی پسلی میں کمر پیچھے رکھیں تو وہ پستو ل سمجھ کر پیچھے نہیں دیکھے گا اور اچھے بچوں کی طرح جو ہوگا جیب سے نکال کر اگلے کی بلکہ پچھلے کی ہتھیلی پر رکھ دے گا‘خود ہمارے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا ۔خاص شہر پشاور گنج کی گلی محلہ دفتر بنداں میں جو تحصیل میں گھوڑوں کی ڈگی کی طرف نکل جاتی ہے‘وہاں ایک سرفروش نے ہمیں روک کر پوچھا تحصیل کی طرف کون سا راستہ جاتا ہے ۔ لگ بھگ سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے‘ ہم خاتون خانہ کےساتھ تھے او ریونہی ذرا واک کو نکلے تھے اور گھنٹہ گھر کی طرف شارٹ کٹ مارنا چاہا تھا‘ اس گلی میں کوئی نہ تھا ‘ہم نے ایک لمحہ غور کیاتو اندازہ ہوا کہ تحصیل گورگٹھڑی کے علاقے میں کھڑے ہو کر ایک بندہ اگر ہم سے تحصیل کا پتاپوچھتا ہے ۔

تو معاملہ خراب ہو چکا او رہم گھیر لئے گئے ہیں‘ میںگھر کے سلےپنگ سوٹ میں تھا۔سوٹ بھی کیا تھا فقیرانہ لباس تھا‘کھلے گریبان کےساتھ کھلی آستینوں والی کھلی ڈلی بغیرکالر پتلی قمیض ‘اوپر والی جیب تو درزی نے بنائی ہی نہ تھی‘ سائیڈ والی تھی مگر اس میں بھی کچھ نہ تھاچابیاں اور ساتھ اس زمانے کا ایک عددمشہور تینتیس دس موبائل ‘اس نے ہماری کمر میں پستول کی نالی رکھ کر کہا نکالو جیب میں جو ہے ۔پستول اگر نہ ہو تو خالی خولی ہاتھ کا پستول بنا لینا اس وقت تاریکی اور سنسان گلی میں کون سا مشکل ہے کہ کسی کو ڈرایا نہ جا سکے‘بزرگوں سے اس موقع کی جو نشانیاں سن رکھی تھیں اور جن سے نصیحت پکڑی تھی وہ یہی تھی کہ جو ہو‘ دے دو‘ اپنی جان سے اچھا کچھ نہیں ‘جو گیا واپس مل سکتا ہے مگر جان گئی تو واپس نہیں آنے والی‘اتنے میں گلی کے کونے پر دو آدمی اندر آئے ‘میں نے کہا ہماری جیب میں ہے کیا جو نکالیں خود دیکھ لو‘اس نے ہاتھ بڑھا کر ہماری سائیڈ کی جیب میں ڈالا اور نکال کر جلدی میں لے گیا۔میںنے سوچا کیا ہے جو یہ لے کر رفو چکر ہوا اس کو چابیوں کے گچھے کےساتھ کیا سروکار۔ وہ جلدی میں پتلی گلی سے نکل بھاگا۔ نو دو گیارہ ہونے سے پہلے اس نے خاتون خانہ کی طرف غور سے دیکھا کہ اس نے زیورات تو نہیں پہنے ‘مگر کہاں‘ ہماری جیب میں تھا کیا جو دن کی روشنی میںبھی اگر وہ واردات کرتا تو اسے مل جاتا ۔

وہ سر پر پا¶ں رکھ کر بھاگا او رہم نے اہلیہ سے پوچھا یہ لے کر بھی کیا گیا ہے ۔ انھوں نے کہاموبائل لے گیا ہے ۔ اوہو مگر اب ہو بھی کیا سکتاتھا۔یہاں بہادری کی داستانیں رقم کرنا اور پھر اپنی جان دے کر رقم کرنا درست نہیں لگ رہاتھا ۔ سوچا کسی اور موقع پر بہادری کے کارنامے ریکارڈ کروا لیں گے۔ اسوقت بہتر یہی ہے کہ ہم بھی اسی پتلی گلی سے نکل چلیں ورنہ کوئی اور لٹیرا مل گیا تو اسے کیا دیں گے ‘جیب تو خالی ہو چکی ہے ‘کیونکہ یہ سنا ہے کہ خالی جیب والے کو بھی مار دیتے ہیں کہ تیری اس قسم کی بد حالی کی زندگی سے تو موت اچھی ہے ۔کھلونا پستول کی بات چل رہی تھی اور بات کہاں سے کہاںنکل گئی ‘اسی لئے کہتے ہیں”بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی“ یا غالب نے کہا کہ ”ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں۔ ورنہ کیا بات کر نہیں آتی “ یہاں تو سچ مچ کا پستول بھی اگر اس میں گولیاں نہ ہوںکسی پر تان لیا جائے تو جرم ہے ۔ مگر کیا پتا سامنے والے کے ہاتھ میں اصلی پستول ہے یا کھلوناپستول ہے کیونکہ کھلونا ہتھیاروں کی انڈسٹری نے اتنی ترقی کی ہے کہ ہر قسم کے ہتھیار بچوں کے کھیلنے کے لئے بنا ئے ہیں ۔ بچے ان سے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں مگر ان کو ایک قسم کی تربیت بھی تو حاصل ہو رہی ہے ‘ یہ سب کچھ فلموں کی وجہ سے ہے جو ان معصوموں کو دکھلائی جاتی ہیں‘کارٹون ہوں تو اس میں بھی جدید ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے ‘فلمیں اگر بڑوں کے لئے بنی ہیں تو ان میں بھی پستول طمانچے اور راکٹ لانچر اور لیزر گنوں کی نمائش کی جاتی ہے ۔ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے تو ہم نے اس سے کیا اچھا سبق سیکھنا ہے ۔