کورونااورڈاکٹر

 پوری دنیا ایک ایسی وبا کی لپیٹ میں ہے جس کا نہ کوئی علاج ہے اور نہ اس سے کسی طرح کا چھٹکارا ہے‘ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جو نہ کسی غریب کا لحاظ کرتی ہے اور نہ کوئی امیر اس کے وار سے محفوظ ہے‘ کہتے ہیں کہ اس کا علاج تو کوئی نہیں ہے مگر اس سے جان اس طرح بچائی جا سکتی ہے کہ ہجوم سے بچا جائے اور زیادہ سے زیادہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھا جائے ‘ مگر کیا کیا جائے کہ انسان بنیادی طور پر ایک سوشل جانور ہے اور یہ اپنے ہم جنسوں سے دور نہیں رہ سکتا اور جتنا بڑا مجمع ہوگا یہ اس میں اتنا ہی خوش رہتا ہے‘ اسی لئے خوشی کے اہتمام میں اس کا ایک بڑے مجمع کا انتظام کرنا ایک فطری عمل ہے ‘ اس کے علاوہ کسی بھی مذہب کو لیجئے اس کی عبادات میں اجتماعیت کو ایک بڑا مقام حاصل ہے‘ مسلمان تو خصوصاً دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں اکٹھے ہو کر عبادت کرتے ہیں اور جمعے کے دن بہت سی مساجد کے نمازی ایک بڑی مسجد میں اکٹھے ہوکر ایک نماز ادا کرتے ہیں‘ او رسال میں دو دفعہ پورا گاو¿ں یا شہر کی ایک بڑی آبادی ایک جگہ اکٹھی ہو کر نماز عیدین ادا کرتی ہے‘ اس کے علاوہ عمرہ اور حج ایسی عبادات ہیں کہ جن میں پوری دنیاکے مسلمان اکٹھے ہو کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں ‘ حج کا اجتماع دنیا میں کسی بھی مذہب کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے ‘ اسی طرح عیسائی ہر اتوار کو اپنے کلیسا میں جمع ہوکر اجتماعی عبادت کرتے ہیں‘ کہنے کا مطلب یہ کہ عبادات کو لیں تو بھی اجتماعیت ان کا لازمی جزو ہے‘ اس کے علاوہ شادی بیاہ اور دیگر رسومات میں بھی اجتماعیت کو اولین درجہ حاصل ہے‘۔

 جب ایسی صورت ہو اور اس میں ایک ایسی وبا کا سامنا ہو جائے کہ جس میں ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کی ممانعت ہو تو یہ انسان کےلئے کس قدر مشکل کام ہو گا‘ ایسے میں جو لوگ بیماروں کی تیمار داری اور علاج معالجے سے منسلک ہیں اُن کا کیا حال ہے‘ یہ لوگ دن رات ایسے لوگوں سے مل رہے ہوتے ہیں کہ جو واقعی اُس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جس سے ڈر کر ساری دنیانے خود کو اکلاپے میں قید کئے رکھا ہے‘ ہمارا ملک اتنا ترقی یافتہ بھی نہیں ہے کہ پورے ملک کے ڈاکٹروں کو اس مرض سے بچاو¿ کے لباس مہیا کر سکے ‘ اسکے علاوہ ہمارے لوگ اتنے ایماندار ہیں کہ جو لباس تحفے میں دوسرے ملکوں سے خصوصاً چین سے ڈاکٹروں کےلئے آئے ہیںوہ ہمارے بڑے لوگوں نے آپس میں تقسیم کر لئے ہیں او ر ڈاکٹروں کےلئے بہت ہم کم رہ گئے ہیں جو ان کا بچاو¿ کر سکیں ‘ دوسری بات کہ یہ لباس اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ ایک انسان سارا دن ان کو پہن کر بھی سکھی نہیں رہ سکتا ‘ ان بہت سی کمزوریوںکے باوجود ہمارے ڈاکٹر انسانیت کے جذبے سے سرشار اپنی زندگیوںکی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف ہیں۔

ان کی خوداحتیاطی کے باوجود کہیں نہ کہیں ایسی کمزوری رہ جاتی ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے کہ وہ ایک خطرناک بیماری میںمبتلا ہو گئے ہیں وہ اپنے مریضوں کی جان بچانے میں لگے ہوتے ہیں اور بہت سے ڈاکٹر نرسیں اور ہسپتالوںکا دیگر عملہ اس موذی مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکا ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی سروس سے پیچھے نہیں ہٹے ‘ اللہ کریم ان کو جزائے خیر دے اور شہیدوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عنایت فرماوے‘ہمیں ان لوگوں کی قدر کرنی چاہئے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جو لوگ دن رات ایک ایسے وقت میں کہ جب ساری دنیا کے باسی خود کو تنہائی کی زندگی میں لے جارہے ہیں یہ لوگ دن رات ایک کئے ہوئے ایسے مرض سے لوگوں کو بچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں کہ جس کا کوئی علاج ابھی تک معلوم نہیں کیا جا سکا اور جو معلوم ہے بھی وہ اس قدر مہنگا ہے کہ ہمارے امیر ترین لوگ بھی اس کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں‘ اسلئے ضروری ہے کہ احتیاط کی جائے اور جس قدر ممکن ہو ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کیاجائے جہاں لوگ زیادہ ہوں اور کورونا پھیلنے کے خطرات لاحق ہوں‘ صرف احتیاط سے ہی کورونا کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے۔