چینی کابحران

 چینی کی پیداوار اس سال بہت کم ہوئی اس لئے کہ بہت سے چینی کے کارخانے بوجوہ بند ہیں ا ور جو کارخانے کام کر رہے ہیں ان میں اتنی ہی سکت ہے کہ وہ ملکی ضروریات کےلئے ہی چینی پیدا کر سکیں‘سو یہی ہوا کہ جو چینی اس سال پیدا ہوئی وہ صرف ملکی ضروریات ہی کےلئے کافی تھی یعنی اس میں کوئی اضافہ نہ تھا کہ جس کی وجہ سے چینی کو برآمد کیا جاتا‘ مگر ہوایہ کہ چینی کی برآمدگی کی اجازت دے دی گئی اور چینی کے کارخانہ داروں نے چینی کو برآمد کردیا جس سے ملک میں چینی کی کمی ہوگئی اس وجہ سے چینی کی قیمت اچانک ہی پچاس روپے کلو سے نوے اور سو روپے کلو تک جا پہنچی‘ وزیراعظم عمران خان نے دیکھا کہ چینی کی قیمت میں اچانک ہی بے حد اضافہ ہوگیا ہے تو انہوں نے اس کی تحقیق کا حکم دیا ‘ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آئی تو جیسا کہ پچھلی حکومت یہ قانون پاس کرگئی تھی کہ جو بھی تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ ہو گی اس کو پبلک کیا جائے گا ‘ اس کمیٹی کی رپورٹ آئی جس میں صرف اس بات کا تعین کرنا تھا کہ اس دفعہ چینی کی قیمتوںمیں اچانک اتنا اضافہ کیوں ہوگیا ہے تو تحقیقی کمیٹی نے وہ رپورٹ حکومت کو پیش کردی جس کو پبلک کے سامنے لانے کےلئے پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا‘حکومت کے ذمہ داران نے جو رپورٹ پریس کانفرنس میں پیش کی وہ توکچھ الگ ہی بیان کر رہی تھی‘ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ 1990 میں حکومت نے چینی کی برآمدگی پر سبسڈی دی‘ سبسڈی در اصل برآمد کنندگان کو اس لئے دی جاتی ہے کہ ان کی اشیاءکی جو قیمت ملک میں مل رہی ہوتی ہے وہ باہرکے ملکوں میں کم ہوتی ہے‘ اسلئے اس کمی کو پورا کرنے کےلئے حکومتیں برآمدکنندگان کوجو رقم فراہم کرتی ہیں اسی کو سبسڈی کہا جاتا ہے اور یہ ہر حکومت برآمدکنندگان کو دیتی ہے اور یہ کوئی غیرقانونی بات نہیں ہوتی۔

 حکومتیں اس طرح سے ملکی خزانے کےلئے ڈالر حاصل کرتی ہیں‘ یاد رہے کہ کوئی بھی شے اس وقت برآمد کی جاتی ہے جب وہ ملکی ضروریات سے زیادہ ہو جائے ‘ساری حکومتیں پیداوارحاصل کرنےوالے اداروں کو اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کو برآمد کریں ‘اور اس کےلئے وہ اداروں کو سبسڈی بھی دیتی ہیں ‘ اس باریوں ہوا کہ چینی کے بہت سے کارخانوں کی بندش کی وجہ سے چینی کی پیداوار کم ہوئی اور وہ بمشکل ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل تھی مگر ہوا یوں کہ کابینہ کو ہوسکتا ہے کہ غلط معلومات دی گئی ہوںکہ انہوں نے چینی کی برآمد کی اجازت دےدی جب چینی برآمد کی گئی تو ظاہر ہے کہ ملک میں چینی کی کمی ہو گئی اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے مطابق چینی کی سپلائی جو کم ہوئی تو قیمتوںمیں یک دم اضافہ ہوگیا اور جو چینی پچاس روپے کلو بک رہی تھی وہ اچانک ہی نوے اور سو روپے تک چلی گئی‘ اسی طرح پچھلی حکومت کی سبسڈی کی بات ہوئی جس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سبسڈی دی تھی تو اس میں بھی چینی کی پیداوار ملکی ضروریات سے زیادہ تھی اور چینی کو برآمد کرنا ضروری تھا اور اس کےلئے ،جو حکومتیںکرتی ہیں‘ برآمدکنندگان کو سبسڈی دی گئی اس میں کوئی غیرقانونی بات تو تھی نہیں مگر بدقسمتی سے شریف خاندان کی بھی شوگر ملیں ہیں اسلئے ہر پریس کانفرنس میں ان کا ذکر بھی ضروری ہوتا ہے مگر اس پریس کانفرنس میں پچھلی حکومتوں کا ذکر تو ہوا مگر موجودہ مہنگائی کے ذمہ داروں کی بات اس وقت گول کردی گئی تھی‘ تاہم اب اس میں ملوث تمام افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں اور وزیراعظم نے بغیرکسی پس و پیش کے تمام کےخلاف کاروائی کا بھی عزم ظاہر کیا ہے ۔دیکھا جائے تو ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ عوام کیلئے کسی بھی سطح پر مشکلات پیدا کرنے اور قومی خزانے کونقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ ہو۔