تعمیراتی شعبہ ملکی معیشت رواں کرنے میںمددگار

اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ا س وقت روز افزوں ہونے والی مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے ویسے اس مہنگائی میں خود ساختہ مہنگائی نکال دی جائے تو شاید پھر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ مصنوعی مہنگائی کے طوفان کو سمیٹنے والے خود اس کا حصہ جو بن گئے ہیں جی ہاں ہماری مراد انتظامیہ ہے جو اگر چاہے تو مصنوعی مہنگائی کا سدباب ممکن بنا سکتی ہے مگر معلوم نہیں کہ آخر کیونکر وہ اتنی کمزور دکھائی دے رہی ہے ¾ آئے روز کوئی نہ کوئی چیز مہنگیہونا اب معمول ہے تاہم اچھی بھلی چیز کہ جس کی نہ کوئی ڈیمانڈ ہو اور نہ ہی رسد میں کوئی کمی ¾ مگر پھر بھی اس کے نرخ خود ساختہ طور پر بڑھا دئیے جائیں تو افسوس تو ہوتا ہی ہے شہری اور خاص طور پر غریب و متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں کہ آخر بنے گا کیا؟ آٹے کا مسئلہ ہو یا چینی کا ¾حکومتوں کی جانب سے احکامات جاری ہو جاتے ہیں حکم ملتا ہے کہ ملک میں سارا سال گندم اور آٹے کی مناسب قیمتوں پر فراہمی یقینی بنائی جائے ¾حکومت اور حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پھر بھی آٹے اور چینی کی کنٹرولڈ نرخ پر فراہمی یقینی نہیں بنائی جاسکتی ¾جہاں تک آٹے کی بات ہے تو بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ خدشہ اب بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ لئے گئے تو ستمبر اکتوبر میں آٹا بحران شدت اختیار کر جائے گا ¾ یقینا یہ ذمہ داران کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے اور ساتھ ہی توجہ طلب بھی۔دانا لوگ تو اس بات پر حیران ہیں کہ گندم کی فصل کاٹے ابھی ایک دو مہینے ہی تو گزرے ہیں پھر اس طرح کے بحران کی وجہ کیا ہو سکتی ہے آٹا کی قیمت بڑھتی ہی جا رہی ہے ایک ابہام ہے جسے فوری طور پر حل کرنا پڑے گا عوام تو اس پر بھی حیران ہیں کہ فلور مل مالکان کے مطالبات تسلیم کئے جانے کے باوجود بھی صورتحال میں بہتری کیوں نہیں آ رہی ہے ¾ معاشی معاملات اور کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ ¾ ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلے اور قومی معیشت کی زبوں حالی بھی اپنی جگہ لیکن ایک عام شہری اس بات پر پریشان دکھائی دے رہا ہے کہ ان مسائل کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات اور وہ بھی ٹھوس اقدامات واضح طورپر نظر کیوں نہیں آ رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان ان مسائل کا نوٹس لیتے ہیں ¾ گھنٹوں میٹنگز چلتی رہتی ہیں لوگوں کو عہدوں سے فارغ تک کر دیا جاتا ہے مگر مارکیٹوں میں اشیاءکے نرخ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ¾ اب عیدالاضحی قریب ہے ¾ کھانے پینے اور خاص طور پر عیدالاضحی کے لئے خصوصی طور پر تیارکئے جانے والے کھانوں کے استعمال کی اشیاءمہنگی کر دی گئی ہیں ¾ٹماٹر ¾لیموں ¾پیاز ¾دھنیا یعنی سبز مصالحہ جات کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہی جا رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ فوراً متحرک ہو ¾اشیاءمہنگی فروخت کرنے والوں کو سزا دینے میں یعنی سخت سزا دینے میں کوئی قانونی پیچیدگی ہے تو اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں سے قانون سازی کے ذریعے مدد لی جاسکتی ہے ¾مگر عوام پر مہنگائی کا بوجھ تو نہ ڈالا جائے ¾ کھلی منڈی میں کسی چیز کا کوئی ریٹ نہیں ¾دکاندار ہو کہ ریڑھی بان ¾جیسے ان کی مرضی ہوگی ویسا ہی ریٹ وہ نافذ کر دیتے ہیں بس مہنگائی کا سدباب آج کا بڑا مطالبہ بن چکا ہے ¾ذمہ داران کو اس بات پر سوچنا چاہئے کہ حکومت کی کوشش عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی ہے مگر عوام تک یہ ریلیف کیونکر نہیں پہنچ رہا اب حکومت کی جانب سے تعمیرات کے شعبے کی جانب خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اس سے جہاں ایک جانب روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے وہیں غریبوں کیلئے سستے گھروں کے مالک بننے کی جانب بھی ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔ تعمیرات کا شعبہ ملکی معیشت کیلئے اہم قوت محرکہ تصور کیا جاتا ہے کسی بھی ملک میں اگر معاشی جمود طاری ہو جائے اور پھر اسے یعنی معاشی جمود کو توڑنے کیلئے جو شعبے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں شعبہ تعمیرات ایسے شعبوں میں سے ایک ہے اور خوش قسمتی سے اس وقت حکومت پاکستان نے بھی یہ شعبہ آگے بڑھانے کی سعی شروع کردی ہے تعمیرات ایسا شعبہ ہے جس کے ساتھ درجنوں کی تعداد میں ذیلی صنعتیں اور ہنر بھی جڑے ہوتے ہیں تبھی تو ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس سے ملک ، معاشرے کا ایک بڑا حصہ روزگار حاصل کر لیتا ہے اگر تعمیرات کے شعبے کو صرف بیروزگاری کے خاتمہ کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو اس کے بہت مفید مقاصد واضح طورپر سامنے دکھائی دیتے ہیں اس لئے اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ موجودہ حکومت کا یہ منصوبہ ملکی معیشت کو رواں کرنے میں خاصا مدد گار ثابت ہوگا یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ پاکستان میں تیار گھروں کی دستیابی طلب کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی میں سالانہ 2.7فیصد اضافہ ہو رہا ہے یہ شرح ملک کی مجموعی آبادی کی شرح اضافہ سے بھی زیادہ ہے۔

 شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایک سال میں ساڑھے تین لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ان گھروں کی سب سے زیادہ ضرورت نچلے طبقات کو ہے خاص طورپر ایسے لوگوں کو کہ جن کا ذریعہ آمدن محدود ہو یا پھر درمیانے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی ان گھروں کی اشد ضرورت ہے اب دیکھئے کہ اس وقت جب ضرورت سالانہ ساڑھے تین لاکھ گھروں کی ہے تو اس وقت جو نئے گھر تعمیر ہو رہے ہیں ان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہی ہوتی ہے اور اس طرح تقریباً دو لاکھ گھروں کی کمی ہر سال درپیش ہوتی ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی جو کہ حکومت نے جاری کردی ہے اس کو برقرار نہ رکھا گیا تو یہ سالانہ طلب ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔ یہ جائزہ یہ بات سمجھانے میں بھی مدد دیتا ہے کہ حکومت کو چھوٹے ہاﺅسنگ یونٹس کے لئے زیادہ مراعات اور سہولیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تیزی سے بڑھتی شہری آبادیوں میں رہائش کے مسائل سے بہتر طورپر نمٹا جا سکے گا اس میں ایک اور فائدہ ان کو بھی ہوگا جو اس شعبہ میں سرمایہ کاری کریں گے ایسے میں یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ حکومت کی جانب سے پانچ اور سات ، دس مرلہ کے مکانات کےلئے شرح سود میں سبسڈی بھی ہوگی ، وزیر اعظم عمران خان نے کمرشل بنکوں کو تجویز بھی دی کہ وہ اپنے مجموعی قرضوں کا پانچ فیصد ہاﺅسنگ پراجیکٹس کے لئے مختص کریں اور یہ تقریباً 330 ارب روپے بنتے ہیں ماہرین کے مطابق اس مقصد کیلئے بنکوں کو آمادہ کرنا ضروری تھا کہ اس شعبہ میں بینک اس طرح آگے نہیں بڑھتے جس طرح بڑھنا چاہئے اور پاکستان میں شعبہ تعمیرات کی سست روی اور نا کامی کی ایک وجہ بنکوں کا ایسا رویہ بھی ہے ۔ اب امید ہے کہ بنک وزیر اعظم کی ہدایت پر سستے قرضے فراہم کریں گے اور یقیناً اس سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی ، تعمیرات کا علیٰ معیار بنانے کے لئے ایک طرف جہاں مروجہ قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وہیں جدید ٹیکنالوجی کو بھی بروئے کار لایا جائے ، زمینوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہیے ، حکومت بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں بھی حوصلہ افزائی کرے ۔