اور بس چل پڑی

ایسا لگتا ہے جیسے سوائے مہنگائی کے دیگر کئی حوالوں سے خوشیاں آنے والی ہیں یا پھر آگئی ہیں ،حکمران تو ہمیشہ ہی سے اپنے بیانات کے دوران اچھے اچھے اعشارئیے سامنے لاتے ہیں تاہم حقیقت وہ ہوتی ہے جو کھل کر سامنے بھی آجائے کہ جیسا موجودہ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کہتے ہیں کہ جولائی 2020 میں دو ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں اور برآمدات میں چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی میں ہی ہدف سے 23 فیصد زائد ٹیکس اکٹھا کیا گیا اور کل ٹیکس وصولی 300 ارب سے زائد رہی ، جی ہاں یہ تو مشیر خزانہ کہہ رہے ہیں اب ذرا وزارت تجارت کی جانب سے جاری بیان کو بھی دیکھ لیں کہ وہ مشیر خزانہ کی بات کی تاکید کررہی ہے ، کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں ہی ملکی برآمدات میں 5.8 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ایک ارب 99 کروڑ80 لاکھ ڈالرز رہیں، وزارت تجارت کے مطابق جولائی جوکہ رواں مالی سال کا پہلا مہینہ ہے میں سالانہ بنیاد پر برآمدات بڑھنا شروع ہوگئی ہیں اور متذکرہ مہینے میں ان برآمدات میں دس کروڑ 90 لاکھ ڈالر اضافہ ہوا ہے اور ٹوٹل یہ ایک ارب 99 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہیں جبکہ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ گزشتہ مالی سال کا حجم ایک ارب 88 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا، اسی طرح سالانہ بنیاد پر اگر تجارتی خسارہ دیکھیں تو اس میں گزشتہ ماہ یعنی جولائی میں 14.7 فیصد یا 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کمی ہوئی اور یہ ایک ارب 54 کروڑ20 لاکھ ڈالر رہا، واضح رہے کہ جولائی 2019 میں تجارتی خسارہ ایک ارب 80 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہا تھا یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کی بنیاد پر مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزارت تجارت مطمئن دکھائی دے رہی ہے اور اسی تناظر میں مشیر تجارت عبدالرزاق داو¿د نے اسے اپنی وزارت اور ملک کے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ گزشتہ چار ماہ سے برآمدات میں کافی کمی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مشیر تجارت کی بات اپنی جگہ خوش آئند ہے دوسری جانب یہ بھی تو قابل اطمینان بات سامنے آئی ہے کہ یہ ساری کامیابی ان حالات میں ملی کہ جب عالمی وباءنے معیشت کو نہ صرف پاکستانی معیشت بلکہ دنیا کی معیشت کو ایک قدم پیچھے چلنے پر مجبور کردیا تھا ایسے میں پاکستان میں کرونا وائرس اور سمارٹ لاک ڈاو¿ن جیسے حالات کے باوجود بھی برآمدات میں اضافہ یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہے اس کا مطلب یہ بھی تو ہوا کہ یہ ”‘میک ان پاکستان“ یا ”میڈ ان پاکستان“ پالیسی کامیاب رہی ہے ماہرین بھی اس بات کا ذکر کرنے لگے ہیں کہ نئے مالی سال کے پہلے مہینے ہی سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملنا شروع ہوگیا ہے سیمنٹ کی پیداوار اور فروخت میں 33فیصد اضافہ ہوا جولائی ہی میں تقریباً چالیس لاکھ ٹن سیمنٹ استعمال ہوا، اب اگر غور کیا جائے تو چند ماہ پہلے حکومت نے جو کنسٹرکشن کے حوالے سے یعنی تعمیراتی پالیسی دی تھی اور سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرنے کیلئے جو مراعات دی تھیں اور ترغیبات بھی تو دی گئی تھیں کہ رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں 40 لاکھ ٹن سیمنٹ کا استعمال اس پالیسی کی کامیابی نہیں قرار دیا جاسکتا۔

 یقیناً قرار دیا جاسکتا ہے اور ابھی تو آگے چل کر یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافے کے واضح امکانات ہیں اور دیکھنے میں بھی تو آرہا ہے کہ کنسٹرکشن کے شعبے میں واضح طور پر تبدیلیاں آرہی ہیں سرمایہ کار حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مراعات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ 31 دسمبر سے پہلے پہلے ان مراعات سے خوب فوائد سمٹ لے ، سرمایہ کاروں کی تو یہ بھی کوشش ہے کہ وہ اس سیکٹر میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کریں کہ حکومت دسمبر کے بعد کے وقت میں بھی انہیں مزید مراعات سے نوازے‘ یہ تو سرمایہ کار کی سوچ ہے تاہم ہمیں یہاں حکومتی پالیسی کا بھی خیرمقدم کرنا چاہئے کہ اس نے سرمایہ کار کو راغب کیا تو اس کا واضح طور پر فائدہ یقینا اس سیکٹر سے جڑے دیگر شعبہ جات یعنی اس کی درجنوں ذیلی صنعتوں کو پہنچے گا‘ ہنرمند طبقہ اس سے خوب مستفید ہوگا ساتھ ساتھ بیروزگاری اور وہ بھی اس طبقہ کی بیروزگاری جو کہ بہت ہی غریب ہے وہ بھی تو اس سکیم‘ پالیسی سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہے یعنی مزدور طبقہ‘ مزدور طبقہ تو کورونا وائرس کے باعث یعنی اس وباءنے تو مزدوروں کو بھوک پر مجبور کردیا تھا وہ تو بھلا ہو حکومت کے ”احساس پروگرام“ کا کہ جس نے پورے ملک میں کسی کو بھی بھوکا سونے نہ دیا ورنہ تو وباءکی لہر نے غریب طبقات کے ساتھ ساتھ ہنرمند افراد اور مزدور طبقہ کو بری طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا‘ معاشی سرگرمیوں کی بات چل رہی ہے تو یہ بھی جان لیں نئے مالی سال کی معاشی بہتری کی جانب پٹرول 8 فیصد اور ڈیزل کی فروخت میں 15 فیصد اضافہ بھی تو دیکھنے میں آیا اور یہ ریکارڈ بھی بن گیا‘ اب اگر نگاہ فرٹیلائزر کی جانب بڑھائیں تو وہاں بھی آپ کو فرٹیلائزر کی فروخت میں 22 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملے گا یقینا یہ بڑی کامیابیاں ہیں معیشت کی بہتری کی جانب سفر کے لئے‘ دوسری جانب ہماری مقامی معیشت میں بھی تو بہتری آرہی ہے‘ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بھی بہتری دکھائی دی اور کورونا کے دوران بھی سٹاک مارکیٹ 47 فیصد بڑھی بلوم برگ پاکستان کی تعریف کررہا ہے موڈیز نے پاکستانی معیشت کو مستحکم قرار دیا‘ معیشت کی روشن صبح پاکستان میں طلوع ہونے کو ہے تبھی تو پاکستان میں اب کاروباری سرگرمیاں بھی بحال کردی گئی ہیں‘ اب کسی کو بھی زبردستی دکان‘ مالز اور پلازے بند کرنے کو نہیں کہا جارہا ہے‘ سرکاری دفاتر پہلے ہی کھل چکے ہیں صرف اور صرف ملک میں تعلیمی ادارے بند ہیں اور شادی ہالز‘ ان دونوں کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ پندرہ ستمبر یعنی اگلے ماہ کے وسط سے کھول دئیے جائیں گے تاہم تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی کے لئے سات ستمبر کو ایک مرتبہ پھر بین الصوبائی وزرائے تعلیم کی وفاقی وزیر تعلیم کے ساتھ آن لائن میٹنگ ہوگی‘ اجلاس ہوگا اور اسی روز باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ یعنی حتمی فیصلہ کیا جائے گا کہ تعلیمی ادارے 15 ستمبر کو کھولے جائیں گے کہ نہیں‘ زیادہ تر امکان تو یہی ہے کہ تعلیمی ادارے کھول ہی دئیے جائیں گے تاہم ان کے لئے قوائد و ضوابط رکھے جائیں گے اور احتیاط کے تناظر میں کچھ ضروری اقدامات تجویز کئے جائیں گے۔

 جن کی رو سے ہی تعلیمی ادارے‘ سکول کھل سکیں گے کہ جو یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ورنہ تو ماہرین ہی میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو ابھی سے اشارے دے رہے ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو تعلیمی اداروں کے ذریعے سے کورونا وباءپھر سے پھیل سکتی ہے یہ ماہرین اس حوالے سے یورپی ممالک خاص کر اٹلی اور برطانیہ کی مثالیں دے رہے ہیں جہاں وباءکی شدت کم ہونے پر تعلیمی ادارے کیا کھلے کہ دوبارہ بند کرنے پڑ گئے‘ شادی ہالز کے لئے بھی طریقہ کار قوانین وضع کئے جائیں گے جبکہ ان دو اداروں کے علاوہ تو پورا پاکستان کھل گیا ہے‘ وباءمیں کمی ایک کامیابی بھی تو ہے‘ معاشی سرگرمیوں کی مکمل بحالی تقریباً ہوچکی ہے اور ان سرگرمیوں کے دور رس نتائج بھی آنے لگے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ ہی ملک کے وہ طبقات جو کہ اب تک نقصانات کا سامنا کررہے تھے ان میں نہ صرف خوشی کی لہر پیدا ہوئی بلکہ ان کے کاروبار بھی بحال ہوگئے ہیں ایک عام دکاندار جوکہ پابندیوں کی مکمل زد میں تھا اور جسے شام سات بجے تک دکان ہر صورت بند کرنا پڑتی تھی اور اگر نہ کرتا تو پولیس کی ڈانٹ جوکہ گرفتاری کی صورت بھی بن جاتی تھی اس کا مقدر بنی ہوئی تھی اب یہ دکاندار اس طرح کی قید سے آزاد ہوگیا ہے ، اب چاہے وہ رات گیارہ بارہ بجے تک ہی کیوں نہ دکان کھولے ، کوئی بھی اس سے پوچھنے والا نہیں، اب اگر کسی شہری کو اچانک کچھ چاہئے ہو تو وہ کسی بھی وقت گھر سے نکل سکتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بازار کھل گئے ہیں۔