قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

تاریخ میں پیچھے جائیں تو گرم علاقوں میں زیادہ خوشحالی تھی مثلاً ان میں جدید کولمبیا کی انگکور تہذیب، جنوبی ہندوستان میں وجےیاناگرا، ایتھوپیا میں اکسوم یا پاکستان میں موہنجودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں شامل ہیں۔اگرچہ حالیہ عرصے میں گرم مرطوب خطے سے تعلق رکھنے والے چند ممالک جیسے سنگاپور، ملائشیا اور بوٹسوانا کی تیزرفتار ترقی نے اس نظریے کا ابطال کیا ہے لیکن اسکے باوجود اس کے وکلاءمثلا جیوفری ساش اب بھی اس کی وکالت کررہے ہیں تاہم اس نظریے کی جدید شکل سوچ اور کوشش پر آب وہوا کے اثر کے بجائے اس بات پر مبنی ہے کہ اس خطے میں ملیریا جیسی بیماریاں یہاں کے لوگوں کی صحت اور پیداواری صلاحیت پر انتہائی برا اثر ڈالتی ہیں اور یہ کہ یہاں کی زمینیں پیداواری زراعت کےلئے موزوں نہیں ہیں کیوں کہ یہاں زمینوں کی سطح پتلی ہے، ان میں نمکیات جذب کم ہوتی ہیں اور آبی کٹاو¿ کا آسانی سے شکار ہوجاتی ہیں۔


 لیکن یہ بات بھی درست نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ افریقہ میں ٹراپیکل بیماریوں سے بڑا نقصان ہوا مگر یہ افریقہ کی غربت کا سبب نہیں۔ بیماری زیادہ تر غربت اورحکومتوں کی نااہلی یا عدم تیاری اور حفظان صحت کےلئے مناسب اقدامات نہ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔مثلا انگلستان انیسوی صدی تک بڑا غیرصحت مندملک تھا لیکن پھر حکومت نے صاف پانی، نکاسءآب اور گندگی سے نمٹنے کےلئے سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے وہاں ایک معیاری نظام صحت سامنے آیا۔یہاں فی ایکڑ کم پیداوار کی وجہ زمین کی حالت نہیں بلکہ اس کی وجہ ان علاقوں میں زمین کی ملکیت کا نظام اور حکومتوں اور اداروں کی جانب کسانوں کو دی ہوئی ”مراعات و ترغیبات“ ہیں۔ حقیقت یہ ہے دنیا میں انیسویں صدی میں جو معاشی عدم مساوات شروع ہوئی اس کی وجہ زرعی پیداوار نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں صنعتی ٹیکنالوجی اور پیداوار کا غیر مساوی پھیلاو¿ ہے۔۔قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں دوسرا مقبول مفروضہ ثقافت کا ہے۔


 جرمن ماہر سماجیات میکس ویبرکہتا ہے کہ پروٹسٹنٹ اصلاح اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پروٹسٹنٹ اخلاقیات نے مغربی یورپ میں جدید صنعتی معاشرہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ثقافت کا مفروضہ صرف مذہب نہیں بلکہ عقائد، اقداراوراخلاقیات کے کردار پر بھی زور دیتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ افریقی غریب ہیں کیوں کہ وہ اچھے”اخلاقیات کار“ سے محروم ہیں، ابھی تک جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں یا مغربی ٹیکنالوجی کی مزاحمت کرتے ہیں‘ یا یہ کہ لاطینی امریکی کبھی مالدار نہیں ہوسکتے کیوںکہ وہ جبلی طور پر بچت اور محنت کے عادی نہیں۔یہ بات درست نہیں۔ لوگوں کا باہمی اعتباراور باہمی تعاون اگرچہ اہم اقدار ہیں لیکن یہ اس ملک کے اداروں اورنظام کا نتیجہ ہوتے ہیں نہ کہ بذات خود غربت یا خوشحالی کی وجہ۔ مثلا امریکی ایک دوسرے پرزیادہ مگر میکسیکن کم اعتبار کرتے ہیں کیوں کہ دونوں مختلف اداروں کے اندر رہتے ہیں۔ امریکہ میکسیکو سرحد پرمحض ایک سرحدی باڑ کے امریکہ کی طرف واقع نوگیلز ایری زونا مالدار اور میکسکووالا نوگیلز سنورا غریب ہے کیوں کہ ایک امریکہ کے اداروں اور نظام کے نیچے جبکہ دوسرا میکسیکو کے خراب نظام کے نیچے ہے‘ اسی طرح اگرچہ جزیرہ نما کوریا جنگ اور متوازی38- میں تقسیم سے پہلے تاریخی طور پریکساں مذہب، ثقافت اور نسل کا علاقہ تھا اور آج شمالی اور جنوبی کوریا کی ثقافت مختلف ہے


 لیکن ثقافت کا یہ فرق ایک کی خوشحالی اور دوسرے کی غربت کی وجہ نہیں بلکہ نتیجہ ہے اس نظام کا جس کے تحت ہر ایک کام کررہا ہے‘ افریقی ثقافت کی جہاں تک بات ہے سب صحارا افریقہ دنیا کے دوسرے حصوں سے غریب تر تھا اور حبشہ اور صومالیہ کے بغیر اس کی قدیم تہذیبوں نے پہیہ، لکھائی اور ہل جیسی ٹیکنالوجیز کو پنپنے نہیں دیا‘ اگرچہ انیسویں صدی کے آخری اور بیسوی صدی کے ابتدائی حصے میں رسمی یورپی استعماریت تک ان علاقوں میں یہ ٹیکنالوجیز عام استعمال میں نہیں تھیں لیکن افریقی معاشرہ بہت پہلے سے ان سے آگاہ تھا۔ مثلاً کانگو کی بادشاہت، جو آج کل کے عوامی جمہوریہ کانگو کے علاقے میں قائم تھا‘ 1500 عیسوی صدی میں پرتگالیوں کے آنے کے بعد پہیے اور ہل سے آگاہ ہوئے تھے اور پرتگالیوں نے ان ٹیکنالوجیز کے پھیلانے کی کوشش بھی کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ان نئی ٹیکنالوجیز کو قبول کرنے میں افریقی ثقافت اور اقدار رکاوٹ نہ تھیں۔ کانگو کے باشندوں نے مثلاً لباس اور مکانات کے مغربی ڈیزائن کو اپنایا اور بندوق جیسی نئی مغربی ایجاد کو تیزی سے اپنایا کیونکہ اس کے ذریعے وہ غلاموں پر قبضہ کرسکتے اور انہیں برآمدکرسکتے تھے‘کانگو والوں نے دیگر نئی ٹیکنالوجیز کو قبول نہیں کیا کیوں کہ عوام کی سرمایہ کاری اور جانیں دونوں طاقتور بادشاہ اور گروہوں سے محفوظ نہ تھیں جبکہ بادشاہ بھی ہل کا استعمال اور یوں زرعی پیداوار بڑھانے کےلئے پرجوش نہ تھا کیوں کہ غلاموں کی برآمد اس سے زیادہ نفع بخش تھی۔