جرائم کی روک تھام

گزشتہ دنوں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر رات کی تاریکی میں بچوں کی موجودگی میں خاتون کے ساتھ جو ایک دلخراش واقع پیش آیا جسمیں شریک تین ملزمان عابد، شفقت اور اقبال عرف بالامستری ملوث پائے گئے۔ اس سانحہ نے پوری قوم کے جذبات کومجروح کر دیا۔ آج تقریباً ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ مجرمان کو فوری گرفتار کرکے عدالت کے ذریعے جرم ثابت ہونے پر سرعام پھانسی دی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعادہ کیا کہ خواتین اوربچوں کو ہراساں کرنے والے بھیڑیوں کو سرعام پھانسی دی جائے ۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ اس قسم کی سزا کے نفاذ سے بین الاقوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا کرناپڑے گا اور GSP-Plus ٹریڈ سیٹٹس کو بھی نقصان پہنچ سکتاہے۔ آج کے دور میں حکومت نہیں چاہتی کہ وہ بیرونی ممالک کی تنقید کا نشانہ بنے۔ ویسے بھی تفتیش کے ماہرین کی رائے میں سزائے موت جرائم کی شرح میں کمی نہیں لاسکتی۔ داخلہ امور کے ریکارڈ کے مطابق ملک بھر میں ہر ایک گھنٹہ کے دوران ایک زنا بالجبر اور دو گھنٹوں میں ایک اجتماعی ریپ سرزد ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس نوعیت کے جرائم میںملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ گرفتار مجرم کے پولیس ریکارڈ میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی مجرم کئی واردات کرچکا ہوتاہے۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے واقع میں لوث مجرم’عابد‘ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ 2013ءمیں بھی اس نے لاہور میں ماں بیٹی سے ان کے گھر میں ڈکیتی کے دوران زیادتی کی تھی۔ تاہم وہ کچھ ہی عرصہ بعد جیل سے رہاہوگیا کیونکہ مجرم اور شکایت کنندہ کے مابین راضی نامہ ہوگیا حالانکہ قانون کے مطابق اجتماعی زیادتی نان کمپونڈیبل جرم ہے۔ قصور کی ننھی بچی زینب ریپ قتل کیس میں ملوث مجرم پہلے بھی اسی نوعیت کی وارداتیں کرچکا تھا۔ پولیس پر لازم ہے کہ وہ عادی مجرموں کا ریکارڈ تھانے میں رکھے اور اس شخص کی حرکات پر کڑی نظر رکھے تاکہ دیگر بچے اور خواتین اس کا شکار بننے سے بچ جائیں۔ خاندانی عزت ووقار مجروح ہونے کے ڈر سے بے شمار ریپ واقعات کی پولیس سٹیشن میں رپورٹنگ نہیں ہوتی جس سے مجرم کو شہ ملتی ہے کہ وہ سزا و جزاءکے ڈر کے بغیر اپنی خواہش کی تکمیل کرتا رہے۔ اپنی خاطر نہ سہی سوسائٹی میں بہتری لانے اور جرائم کی بیخ کنی کیلئے ہر قسم کے ریپ واقع کی اطلاع پولیس کو فوری پہنچائی جائے۔ عدالت میں کیس دائر ہونے کے بعد تعاون کیا جائے کہ کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے جبکہ ہر قسم کے راضی نامہ سے گریز کیاجائے۔ پولیس فورس کو بھی اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ریپ کے شکار غریب عورت کی رپورٹ لکھنے میں حیلے بہانے کئے جاتے ہیں کئی بار تو عدالت کے حکم پرہی رپورٹ لکھی جاتی ہے دوسری جانب تفتیش کے دوران شکایت کنندہ کو ہراساں نہ کیاجائے اور غیر متعلقہ شخص کو شکایت کنندہ کو دیکھنے نہ دیاجائے لاہور سانحہ میں شکار عورت پڑھی لکھی تھی اور اپنی حفاظت کرنا جانتی تھی اسی لئے موٹروے پر گاڑی خراب ہونے کے فوراً بعد پولیس مدد کیلئے اپنے سیل پر اطلاع دے دی لیکن پولیس کی بے حسی کہ اس نے واقعہ ان کے تھانے کی حدود سے باہر ہونے پر کسی قسم کی کاروائی نہ کی ورنہ پولیس خاتون کومتعلقہ تھانے کا نمبر دے سکتی تھی اور ساتھ ہی ازخود دوسرے تھانے کو اطلاع دیتی۔ پولیس مدد کی فوری فراہمی نہ ہونے سے جرائم پیشہ افراد کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوگئے۔ریپ کے کسی شکار خاتون یا بچے کی عزت نفس کی حفاظت پولیس اور میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اجتماعی او دیگر ریپ کے واقعات کی تفتیش پولیس کے ماہر اہلکاروں سے کی جائے دوران تفتیش شکایت کنندہ اور گواہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے خاتون یا بچے کو بھری عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اس کا بیان عدالتی جج کے ریٹائرنگ روم میں ہی لیاجائے۔ وکلاءبرادری پر بھی لازم ہے کہ وہ کیس جیتنے کی خاطر متاثرہ خاتون سے بے ہودہ سوال کرکے ہراساں نہ کرے۔ ان اقدامات سے جنسی جرائم اگر مکمل طورپر ختم نہیں ہوسکتے تو ان کی شرح میں کمی ضرور آسکتی ہے۔