خواجہ سراءترقی کی راہ پر

مخلوق خدا کا ایک گروہ خواجہ سراءوہ بدقسمت انسانوں کا ٹولہ ہے جسے ہمہ وقت طنز‘مذاق اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اکثر والدین ایسی اولاد کو خاندان بدر کرتے ہیں ‘ خواجہ سراءبچے جائیں تو جائیں کہاں‘ ایسے بچوں کا آسراءصرف اورصرف خواجہ سراﺅں کا گورو ہوتا ہے جہاں دوسرے گھروں سے بیدخل کرنے والے اسی جنس کے بچے اور بڑے رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کے والدین کو اتنا احساس توہونا چاہئے کہ جہاں انکے بچے رہتے ہیں ان کیلئے ماہانہ اتنی فکر تو ہونی چاہئے کہ جہاں انکے بچے رہتے ہیں ان کیلئے ماہانہ طعام و قیام کا خرچہ تو دے دیاکریں سوچنے کی بات ہے کہ کیا خواجہ سراءبچے بنا ماں باپ کے پیدا ہوگئے؟ کیا ہوا اگر ان کی جنس تیسری ہے کیا ان والدین کے گھروں میں سپیشل چلڈرن پیدا نہیں ہوتے یعنی جسمانی یا دماغی طورپر معذور؟ کیا ان معذروں کے والدین نے انہیں گھر سے باہر نکالتے ہیں کیا والدین ان بچوں کی دیکھ بھال یا روپے پیسوں کے خرچے سے اجتناب کرتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں تو خواجہ سراءبچوں کیساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟خواجہ سراﺅں کو پنے نفس کو زندہ رکھنے کیلئے دو ہی راستے میسر ہیں پہلا یہ کہ بازاروں میں بھیک مانگیں دوئم شادی بیاہ میں رقص کرکے معاوضہ لیں یہ امر قابل تحسین ہے کہ انہی لوگوں میں چند افرادنے محنت مشقت اور قوت ارادی کی بدولت اپنی زندگی میں ایک نیا اور باعزت مقام حاصل کرلیا ہے یہاں ایک ایسی شخصیت کا ذکر کیا جاتا ہے جو خواجہ سراءہوتے ہوئے وکالت جیسے باعزت پیشے میں اپنا مقام بنا گئی یہ ہیں نشاءراﺅ جو اس کا اصلی نام ہے اور انہیں وکلاءکی نشانی کالاکوٹ پہنے کراچی کی عدالت میں فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے سر عام نام بتانے میں نشاءفخر محسوس کرتی ہیں کیونکہ انہوں نے ایسا مقام حاصل کرلیا ہے جو ان جیسوں کیلئے مشعل راہ ہے اوران میں زندگی میں ترقی کرنے کا جذبہ اجاگر کریگا ۔وہ پورے پاکستان میں پہلی لائسنس یافتہ وکیل بن گئی ہیں نشاءراﺅ کی زندگی کی ابتداءاسی اذیت ناک سلوک سے گزری جس سے ہر پیدائشی خواجہ سراءگزرتا ہے نشاءلاہور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی 18سال تک گھر والوں کے علاوہ پڑوسیوں رشتہ داروں کے تضحیک آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑا اجیرن زندگی سے تنگ آکر 18سال کی عمر میں ساتھی خواجہ سراءکے ساتھ لاہور سے بھاگ کر کراچی پہنچی اور خواجہ سراﺅں کے ایک گروہ میں شامل ہوگئی اسے جینے کے دو راستے بتائے گئے رقاضہ بنے یا بازاروں میں بھیک مانگے نشاءنے بازاروں میں بھیک مانگنا شروع کر دیا بھیک کی آمدن سے نشاءنے باقاعدہ تعلیم حاصل کرکے وکالت کی ڈگری حاصل کرلی اب وہ کراچی کی عدالتوں میں ایک قابل وکیل کے طور مانی جاتی ہے نشاءنے اب تک عدالت میں پچاس کیسوں کی پیروی کی ہے اس کے زیادہ تر سائل جنسی زیادتی کے شکار خواجہ سراءہیں نشاءراﺅ کا ترقی کا اگلا ٹارگٹ عدالت میں جج فائز ہونا ہے گزشتہ دنوں پاکستانی خواجہ سراءنایاب علی نے ہیرو ایشیا ایوارڈ جیت لیا اس بین الاقوامی ایوارڈ کیلئے ایشیائی ممالک سے250 تیسری جنس کے افراد کو نامزد کیاگیا تھا تاہم یہ ایوارڈ پاکستانی خواجہ سراءنایاب علی کے حصہ میں آیا قبل ازیں لاہور کے ایک خواجہ سراءنے نجی ٹیلی ویژن چینل پر بطور اینکر پرسن اپنا مقام بنالیا ہے یہ چند مثالیں ہیں جو دوسروں کیلئے مشعل راہ ہیں کہ وہ بھی ناچ گانوں اور بھیک مانگنے سے چھٹکارا حاصل کرکے معاشرے میں باعزت مقام بنالیں میں والدین سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اگر ان کے گھر میں خواجہ سرا جنس کی پیدائش ہو اسے بطور اولاد قبول کرکے گھر ہی میں رہنے دیا جائے اور عام لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ خواجہ سراﺅں کو حقارت سے نہ دیکھیں کیونکہ یاد رکھیں ان کی پیدائش مرضی خدا کی مرہون منت ہے خدا جو فیصلے کرے آپ انہیں خوشی سے قبول کریں۔