مہکتے میٹھے مستانے زمانے

 وہ فراغت کے دن رات تو گئے خاک ہوئے‘مصروفیات بڑھ گئی ہیں یا پھر زمانہ بدل گیاہے۔ وقت کے تقاضوں میں تبدیلی آ گئی ہے۔ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ ہوا ہے کہ جو یہ افراتفری کا عالم ہے۔وہ بیٹھک وہ حجرے اب تو ماضی کے دیار بنتے جارہے ہیں۔اب تو بندہ جو ں صبح سماں گھرسے نکلتا ہے تو کبھی شام کو کبھی شام گئے دیر کو اور کبھی رات کو تاخیر سے اپنے آشیانے کو لوٹتا ہے‘ہائے وہ زمانے تو گائے کھا گئی۔فراغت فراغت ہی فرصت ہی فرصت تھی۔ جس طرف منہ اٹھاتے چل نکلتے اور واپس آنے کے لئے کوئی مجبوری نہ تھی۔ گھر تھا مگر گھر کی فکر نہ تھی۔چار دیواری تو تھی مگر وہ ہمارے سیلانی طبیعت جیسے لوگوں کے آگے کوئی بندھ نہ باندھ سکتی تھی۔نہ تو بیاہ ہوا تھا نہ تو کوئی گھر میں انتظار کرتا تھا۔پھر نہ تو بال بچے کہ جن کیلئے وقت پر گھر جانا ہوتا روٹیاں دروازے پر دے کر دودھ او ردہی کے لئے اگلی کی منزل کی طرف سٹیل کے دو پہیوں والے گھوڑے کو موڑنے کے لئے اس کی باگیں کھینچ لیتے۔آوارہ گردوں کی فہرست میں شاید اوپرکے نمبروں میں شناخت تھی۔ مگر ایسی بھی نہیں کہ کوئی شرانگزیری کی مہمات یا کوئی اخلاق سے ہٹ کر سرگرمی ہوتی۔وہی معصومانہ شرارتیں اور دوستوں یاروں کے ساتھ محفل آرائی ہوتی روڈ ماسٹری ہوتی۔ کبھی دن کو کبھی رات کو۔رات کو جب دکانیں بند ہو جاتیں قصہ خوانی چلے جاتے۔ وہاں دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر تکے کڑاہی کھاتے او رقہوے نوش کرتے۔ایک چینک ختم ہوتی تو دوسری کاآرڈ ر دے دیتے۔صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ایک پرسکون ماحول میں سرمئی صبح کے عالم میں چوک ناصر خان لکڑ منڈی سے شیخ آباد میں شیخ جنید کی زیارت چلے جاتے۔ دعا پناہ کرتے۔ راستے میں کچھ حائل نہ تھاپھرہم میں سے کوئی گھر واپس آنے کو جلدی کا قائل نہ تھا۔جوں گنج پہنچتے تو زیارت دور سے نظر آنا شروع ہوتی۔مٹی کے ٹیلے ہوتے ان پر سے اونچے نیچے ہوتے اٹھکیلیاں کرتے وہاں کی چوکٹھ پر پہنچ جاتے۔یہ خاص ہمارا اپنا وقت ہوتا۔جب ان سر گرمیوں کی بھگتان صبح سویرے کرآتے۔ماں کے کہنے پر گھر کا سودا سلف لانا تو بعد میں شروع ہونا ہوتا۔زیارت سے واپسی پر منڈی بیری محلہ مقرب خان کے باہر چائے کے ہوٹل پر صبح سویرے قہوے کا دور چلتا۔چائے والے کے ساتھ کھاتہ کھول رکھا تھا۔اسی کو یادتھا کہ ہفتے کے سات دن کے بعد کتنے پیسے بن جاتے بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔کبھی کرکٹ کی وکٹیں اٹھائیں اور بیٹ کو بغل میں داب کر وزیر باغ روانہ ہوگئے تو کبھی ہاکی کا کھیل بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پرچلتا اور ورلڈ کپ کے آخری میچ میں رات دو بجے کپتان اصلاح الدین جرمنی کے خلاف دوسرے ہاف کے آخر میں گولی کے سر کے اوپر سے سکوپ کر کے ایک ہی گول کر دیتے تووالدکو دیکھا کہ سجدہ میں گر گئے۔ پھر ہمارا رجحان ہاکی کی طرف ہوجاتا او رہاکیاں اٹھاکر کبھی گھر میں کبھی گلی میں اور کبھی مشن ہائی سکول کوہاٹی دروازہ پشاور کی ٹیم کے ساتھ وزیر باغ میں استاد فرمان کی بجتی ہوئی ریفری والی سیٹی کی آوازوں کے سنگ گراؤنڈ میں دوڑتے ہوئے نظر آتے کہیں دوستوں یاروں کے بھائیوں کی شادی ہوتی تو ہفتہ دس پہلے ہم لوگ شادی والے گھر کی بیٹھک کا چارج سنبھال لیتے۔مفت کے کھانے اوراوپر سے قہوے کے پتنوس سجے آتے۔زندگی کے مزے لے کرزندگی گزارتے۔مگر کیا معلوم زندگی تو ہمیں گزرا گئی۔ہائے وہ پیارے پیارے دوست۔اب کہاں۔کوئی تو شہر میں ہے کوئی ملک کے دوسرے شہروں میں اور کوئی دنیاکے دور درازکے شہروں میں جاآباد ہوئے۔کچھ تو تہہِ زمین جا سوئے۔ اب وہ یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے۔ دل پھٹتا ہے۔سوچتا ہوں کیا وہ زمانہ لوٹ کر آسکتا ہے۔تو یکدم سے وہ گانے کے بول ذہن کے پردوں کو چھیڑنے لگتے ہیں۔ وہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے گانے جو ہم سے پچھلی نسل کے سینئرلوگ سنتے تھے۔وہ گانا جس پر اس وقت تو ہماری توجہ نہ تھی مگر کانوں کے پاس اورسر کے اوپر سے گزر جاتا تھا۔”گزراہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ۔حافظ خدا تمہارا“۔دوستوں کی مالا ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔آہستہ آہستہ سب کی شادیاں ایک کے بعد دوسری ہوتی گئیں اور یاروں میں جدائی کابیج آن پڑا۔کوئی کس نوکری پر لگ گیا اور کوئی کسی نوکری پر جانے لگا۔اب شیخ آباد جائیں تو گھروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔شہر سے بہت زیادہ دور جاتے تو سٹی ریلوے سٹیشن کا رخ کرتے۔جو ہماری آخری حد ہوتی اور وہ شہر کی سرحد بھی ہوتی۔کارپوریشن کالونی سڑک کے پاس تیس ہزار مرلہ زمین کا ریٹ تھا۔زریاب کالونی کرکٹ سٹیڈیم سامنے گلی میں بیس مرلہ زمین تھی۔ والد نے 1975ء پانچ ہزار میں خریدی تھی۔ پھر دس سال کے بعد پانچ لاکھ میں فروخت ہوئی۔ بہت سے کام نپٹائے گئے۔بچوں کی شادیاں ہوئیں اور بہت اخراجات کر کے بھی دوبارہ سے گل آباد کی چراہ گاہوں اور میدانوں میں پھر سے اچھا خاصا پلاٹ خریدا گیا۔مگر یہ تو ویرانہ تھا۔اب کے اس گل آباد روڈ پر سے تانگہ جاتا اور گاؤں شنواری سرائے اور راجکول گڑھی تک آتا۔