دروازوں پہ دستک۔۔۔

دروازوں پہ دستک ہو تی ہے ۔کھڑکیوں پر بھی ہولے ہولے تھپکی سی محسوس ہوتی ہے ۔کیونکہ سردی کے کھیل کا پردہ گرنے والا ہے ۔بہار دو ہاتھ پر ہے ۔ہوا ہولے چلتی ہے تو اپنی سر سر میںآنے والے موسم کی نوید سناتی ہے ۔دروازوں اور کھڑکیوں کے راستے اندر چلے آنے کےلئے کوشاں ہے ۔مگر اس کی آمد مارچ کے مہینے میں ٹھہرگئی ہے ۔لیکن علامات ابھی سے رواں دواں ہیں ۔فصلِ گل نے اشارے دینا شروع کر دیئے ہیں ۔کھڑکیاں کھڑکنے لگیں اور دروازے بجنے لگے ہیں ۔اطلاعات ہیں کہ بیماریوں سے نجات ملے گی ۔ کیونکہ بڑے بوڑھوں نے بہار کو شفابھی قرار دیا ہے جب بے قرار طبیعت میں قرار خود بخود آنے لگتا ہے۔کہتے ہیں کہ زخمی کے زخم اچھے ہونے لگتے ہیں ۔مگر زخمی دل کے تو زخم بہار کے موسم میںہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔پھول کھلنے والے ہیں اور چاروں اور سرخ رنگوں کے کرشمے ہوں گے ۔اودھے اودھے نیلے پیلے پیرہن۔ رنگین پھول اپنی جانفزا جلوہ آرائی کریں گے۔مگر پھول کے ساتھ گل بھی تو کھلیں گے۔مومن خان مومن کاشعر ہے” کیا گل کھلے گا دیکھئے ہے فصلِ گل تو دور۔اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم “۔بہار آئی نہیں اور دیوانہ وار طبیعت والے من چلے ابھی سے ویرانوں کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ بہارآنے سے پہلے ہے ۔مگر بہارآ ئے تو جانے اور کیا ہو۔بعض کہیں گے ” تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی“۔مگر کچھ کو یہ ہوا راس نہیں ہوتی اور ان کو مزید ملال اور سوز وگداز د ے جاتی ہے ۔پھر بہار تو احساس کا نام بھی ہے ۔جو پورے سال میں کسی دن بھی واقع ہو سکتی ہے۔” ان کے دیکھے سے جو آتی ہے منہ پر رونق ۔وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کاحال اچھاہے “۔ بیمار کا حال سال کے کسی دن بھی اچھا ہو۔ مگر شرط ہے کہ اس کے دل کا موسم اچھا ہو۔ان دنوں کی محفلوں میں ہر طرح کی ہا¶ ہو ہے ۔کہیں تو بار بی کیو ہے اور پھر بار بار ہے ۔پھر بعض مقامات پر سوال ہے کہ آخر کیوں بار بی کیو ہے ۔ اس وقت صابر حسین امداد کاہندکو شعر یاد آتا ہے جس کا ترجمہ کچھ ایسے کیا ہے ”آگ پہ یہ جو چیختے ہیں۔ دل کے ہیں یا سیخ کے ہیں“۔یہی ہوا آہستہ آہستہ اپنی رفتار بڑھاناشروع کر دے گی۔پھر جسم پر پہنے کپڑے اڑنے لگیں گے ۔ آسمان رنگوں سے جگمگااٹھے گا۔ہر سمت کو سرِ آسماں رنگ برنگی فر فر کرتے ہوئے فرفرے ہوں گے ۔مچھلیاں فضامیں تیر رہی ہوںگی۔بو کاٹا کی صدائیں ہوں گی ۔پتنگ بازی کے ساتھ کبوتر بازی بھی اپنے عروج پر ہوگی ۔پھر خوشیاں ہوں گی اور کہیں سے محسن احسا ن کے شعر باز گشت بھی سنائی دے گی”ہوا چلی تو مرا عارضی مکاں بھی گیا۔طنابیں کھینچ رہاتھا کہ سائباںبھی گیا“۔درختوںنے جو گریبان پھاڑ کر کے ایک طرف پھینک دیا ہے تو ان کے گریباں بھی نئے سرے سے اُگ آئیں گے۔موسم میں ویسے بھی یخی کم کم ہونے لگی ہے۔ہرچند موسمِ گل پورے طور پر چھا جائے گا۔ صبح تو سردی ہوتی ہے اور اس خشک سردی میں کہ بارش کام نام پتا نہیںدوپہر اچھی خاصی گرم ہوتی ہے۔ پھر جب سورج مغرب کے خیمے میں دھرنا دیتا ہے توخنکی میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے۔اب تک ٹھنڈ کی چھپن چھپائی کا کھیل جاری ہے۔دیکھتے ہیں آگے کیاہوتاہے۔پھر شوقین لوگو ںکے ان دنوں اپنے اپنے مشاغل ہیں جو سرانجام دیئے جائیں گے۔۔اس وقت تو درخت اپنی شاخوں اور شاخساروں سمیت کملائے ہوئے ہیں مرجھائے ہوئے ہیں اور چھڑیاں لے کر یخ موسم کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہیں مگر جلد ہی ان کو ان کی بہادری کا انعام ملے گا جب ہر ڈال پہ پتا بوٹاہوگا اور شاخوں کے اندر کیاریوںمیں پھول چمکیں گے۔ مگر یہ سب کچھ تب ہوگا جب دل کے اندھیری کٹیا میں امید کا دیا روشن ہوگا۔” خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک ۔گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔پھر وہ شعر کہ ” زندگی ہے تو خزاں کے بھی گذر جائیں گے دن ۔ فصلِ گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے“ ۔ ناامیدی او رموسم کے خشک ہونے کے غم کو یا تقدیر کے روٹھ جانے کو لے کر بیٹھ گئے تو بہار کہاں سے آئے گی خود زندگی بھر خزاں کے نرغے میں ڈوب جائے گی۔ دامنِ دل میں امیدیں چن لی جائیں۔کیونکہ اچھے دن اور بہار کے دن دو ہاتھ پر ہیں ۔ پھر وہیں معطر فضائیں ہوں گی ہوائیں ہوں گی پنچھی اٹھکیلیاں کریں گے سرِ شاخ پھول جھولےں گے۔ فیض احمد فیض پھر سے کہیں گے” گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے ۔ چلے بھی آ¶ کہ گلش کا کا روبار چلے“ ۔بادِ صبا کلیوں کو گدگدی کرے گی وہ ہنسیںگے ۔ مگر یہ سب بنت کاری امید سے جنم لیتی ہے ۔بہار میںقدرتی طور پر دل اچھی کیفیات محسوس کرتا ہے ۔