آنچل بھی اسی تار سے بنتے ہیں کفن بھی۔۔۔

کہتے ہیں کوما میں جسم مر جاتا ہے مگر روح زندہ رہتی ہے مگر بے حسی میں روح مر جاتی ہے اور جسم زندہ رہتا ہے۔فراز نے کہا ہے ” کتنی جانکاہ ہے ضمیر کی موت۔ کتنا آساں ہے بے وفا ہونا“۔یہ تو آنکھوں کے پانی کے مر جانے تک ہے۔ وگرنہ تو آدمی آدمی کا دشمن ہے۔ضمیر مر جائے تو پھر سب کچھ آسان ہو جاتا ہے ۔جس کا ضمیر مرجاتا ہے کچھ دے دلا کر اس سے ہر کام کروایا جا سکتا ہے۔یہ الٹے پلٹے کام کرنے والے جو اپنے روزگار میں مصروف ہیں یہ وہی لوگ ہیں۔کوئی کیا کر رہاہے اور کوئی کیا۔آدمی کو کوئی حادثہ پیش آ جائے ۔وہ اس حادثے سے بہت سبق سیکھ لیتا ہے ۔وہ اتنا توبہ گیر ہو جاتا ہے کہ اس کا دم سوکھ جاتا ہے۔ اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش میرے ساتھ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ جیسے کوئی بھی حادثہ جس کا تعلق اس آدمی کے ساتھ براہِ راست ہو ۔کسی انتہائی عزیز رفیق رشتہ دا رکا اچانک عمر بھر کے لئے جدا ہوجانا۔ یا پھر اپنے یا کسی اور کے ساتھ سڑک کا خطرناک حادثہ دیکھ لینا ۔پھر توبہ توبہ کرنا ۔پھر ہفتہ دس دن تک وہ انسان جس پر یہ واقعہ اثر کر گیا ہوتاہے ۔وہ اپنے دل میں کیا کیا ارادے باندھ لیتا ہے۔سوچتا ہے میں آج کے بعد ایک اچھاانسان بنوں گا ۔ کوشش یہی کروں گا کہ میرے ساتھ یہ کچھ نہ ہو ۔زندگی بھر احتیاط کروں گا لیکن جب ایک ماہ گزر جائے تو اس کی وہ حساسیت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ حادثہ دیکھ کر اس سے اثر لینا اور اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش کرناتو ایک کیفیت تھی۔ لہٰذا کیفیت کوئی بھی ہو پائیدارنہیں ہوتی۔ ایک کیفیت ایک خاص عرصے کے لئے آدمی پر اپنا اثر قائم رکھتی ہے ۔اب ہر انسان کے لئے کیفیت کا یہ دورانیہ دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔کوئی تو اگلے گھنٹے میں اس دردناک احساس سے خالی ہو جاتا ہے ۔پھر کوئی اگلے روز نارمل ہو جاتاہے۔مثلاً کوئی انتہائی دردناک فلم دیکھ لینا اور دل میں ارادے باندھ لینا کہ اس فلم میں جو ہوا اب میںاپنے ساتھ نہیں ہونے دوں گا۔ سگریٹ چھوڑدوں گا یہ کروںگا وہ کروں گا۔ مگر وہ اگلے ہفتہ نارمل ہو جاتاہے ۔پھر وہی حرکات شروع کر دیتاہے جو اُس حادثے سے پہلے کرتا تھا۔ کوئی عزیز ترین رشتہ دارکی وفات پر جس طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔وہ حالت بھی تو ایک عرصہ بعد نہیں رہتی۔ ثبوت یہ ہے کہ جب مرحوم کی برسی ہوتی ہے تو غم کی وہ شدت نہیں ہوتی ۔بندہ وہ رونادھونا سب کچھ بھلاکر وہاںگھوم رہاہوتا ہے۔مہمانوں کااستقبال کرتاہے ان کی خاطرداری میں مصروف رہتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ زندگی میں کافی سے زیادہ اور شدید کشش ہے ۔ یہ کائنات بہت پرانی ہے ۔مگر زندگی کا نیا پن ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔وہ اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے۔اسے سب کچھ بھول جاتاہے۔ بچہ جس کا والد فوت ہوجاتاہے ۔ اگر بہت کم عمر ہو تو میت کے موقع پر جہاں لوگ دھاڑیں مار مار کررو رہے ہوتے ہیں۔وہ گلی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہاہوتا ہے ۔اگر چھے سال کا ہو تو اسے ہفتہ بھر باپ کی جدائی بہت ستاتی ہے ۔مگر آہستہ آہستہ وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پندرہ سالوں کے بعد اسے باپ کا چہرہ بھی یاد نہیں رہتا ۔ وہ والد کے ساتھ کھیلنا کھالنا اٹھنا بیٹھنا اس کی باتیں سب کچھ بھول جاتا ہے ۔یہی تو زندگی ہے ۔اسی کا نام زندگی ہے ۔اگرچہ کہ ” زندگی جس کا بہت نام لیا جاتا ہے۔ ایک معصوم سی ہچکی کے سوا کچھ بھی نہیں“۔مگر اس کے باوجود زندگی کے ایام اگر چار بھی ہیں تو زندگی کی خوبصورتی انھیں کم مدت کے دو اور دوچار دنوں میں پوشیدہ ہے ۔دنیا اسی خوبصورتی اور کشش کا نام ہے ۔ اگلا کسی کی خاطر مر ہی جاتا ہے ۔مگر دنیا والے اس کو یاد تک نہیںکرتے بلکہ یاد ہی نہیں رکھتے۔بس جو سامنے ہے وہی سب کچھ ہے ۔جو گزر گیا اسے بھلا دیتے ہیں۔ ” وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا“۔” گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو۔ جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو“۔عام طور سے تو یہی ہوتا ہے کہ جو خاک میں مل گیا اسے بھلا دیا جاتا ہے ۔اس کو اپنی زندگی سے نکال دیا جاتا ہے ۔” لکھ کر ہمارا نام زمیں پر مٹا دیا۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا“۔یہ تو احساسات ہیں اورکیفیات ہیں جو عارضی ہوتی ہیں ۔انسان بدل جاتاہے کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ چیز رکھ دی گئی ہے ۔” احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ ۔ آنچل بھی اسی تار سے بنتے ہیں کفن بھی “۔کسی حادثے میں اگر آدمی کوگہری چوٹ پہنچے اور وہ ہسپتال میں منتقل ہو جائے تو اس کو وہاں بہت تکلیف کا سامناکرنا پڑتاہے ۔