چھوٹی مگر اہم باتیں۔۔

 میاں محمد نواز شریف بھی کبھی ٹیلیفون پر دکھی عوام کی فریاد سنا کرتے تھے ‘ عمران خان نے بھی اب یہی بیڑا اٹھایا ہے میاں صاحب کی اس مشق نے تو عام آ دمی کو کوہی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا اب دیکھتے ہیں موجودہ مشق کیا رنگ دکھلاتی ہے سیاسی مبصرین کا خیال تو یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کا یہ کوئی شافی طریقہ کار ثابت نہیں ہوا اس مقصد کیلئے وزیراعظم صاحب کا پورٹل پہلے سے موجود ہے اس میں موجود کمیوں کوہی رفع کر کے عوام کے مسائل معلوم کرنے کے بعد ان کا حل تلاش کیا جا سکتا تھا وزیر اعظم صاحب کیلے بھلا یہ کیسے ممکن ہو گا کہ 22 کروڑ عوام میں سے ہر فرد کی آ ہ فریاد کو سن کر اس پر مناسب حکم صادر کر سکیں ؟ مشیر احتساب کا یہ کہنا کہ 36 لیگی رہنماو¿ں سے 210 ارب کی زمین واگزار کرائی ہے اپنی جگہ بجا کہ سرکاری اراضیات پر قبضے کو کوئی بھی جائز قرار نہیں دے سکتا پر اگر آپ کسی فرد واحد یا کسی ایک سیاسی پارٹی کے افراد کوہی ٹارگٹ کریں گے تو لامحالہ آپ پر جانبداری کی اور سیاسی انتقام لینے کی انگلیاں تو خوامخواہ اٹھیں گی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا سیاسی کلچر اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اس ملک میں جو سیاسی پارٹی اقتدار میں آئی اس کے کرتا دھرتوں نے سرکاری اراضی کو مفت کا مال سمجھ کر اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔پاکستان میں ہوابازی کے ماہریننے ملک کے بعض علاقوں میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کو خطرہ قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہوابازی کے محکمے سے مل کر کثیر المنزلہ عمارتوں کا سروے کرے تاکہ کسی بھی خطرے کا نیشنل ایئر فیلڈ کلیئرنس پالیسی کے تحت سد باب کیا جاسکے اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی شہروں میں کچھ ایسی کثیرالمنزلہ عمارتیں بنائی گئی ہیں جن سے طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف میں دشواری ہوتی ہے لہٰذا نہایت ضروری ہے کہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے پہلے محکمہ ہوابازی سے این او سی لیا جائے اب تو یہ بات طے ہے کہ اصولی طور پر ہوائی اڈے شہری آبادی سے ایک محفوظ فاصلے پر بنانے چاہئے کیونکہ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اگر کسی ایئرپورٹ کے چاروں طرف یا کسی بھی طرف شہری آبادی ہو گی تو وہ ہوائی اڈہ جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کےلئے خطرے سے باہر نہ ہوگا پرانے اڈوں کی بات چھوڑئیے اسلام آباد کے نئے ہوائی اڈے کے قرب و جوار میں بھی اب تو نئی نئی ہاو¿سنگ سوسائٹیز جنم لے رہی ہیں تجربے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہوائی اڈوں کے قریب قریب جو شہری آبادیاں ہیں ان میں رہنے والے شادی بیاہ اور خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جن سے ان آبادیوں کے نزدیک واقعہ ہوائی اڈوں پر جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت حادثات کا خطرہ ہو سکتا ہے اس کے علاوہ ان شہری آبادیوںمیں کھانے پینے کی اشیاءکی موجودگی کی وجہ سے جو پرند و چرند پائے جاتے ہیں وہ اکثر پھر ہوائی اڈوں کے اوپر فضا میں اڑتے ہیں اور جہازوں کی ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت جہاز سے ٹکرا کر جہاز وں کے کریش ہونے کا سبب بن سکتے ہیں اگر ان حقائق کے تناظر میں اس ملک کے ہوائی اڈوں پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وطن عزیز میں پچاس فیصد سے زیادہ ائیرپورٹس شہری آبادیوں کے وسط میں آچکے ہیں بلکہ یوں کہیے تو بہتر ہوگا کہ ان کے قرب و جوار میں نئی نئی بستیاں آباد ہوگئی ہیں اور اور حکام نے ان بستیوں کی تعمیر کے وقت بروقت اقدام اٹھا کر انہیں تعمیر کرنے سے نہیں روکا۔