عوام سے رابطے کی اہمیت۔۔۔

 اگلے روز وزیراعظم کے ساتھ عوام کا ٹیلی ویثرن سیشن اچھا رہا عمران خان نے لوگوں کے سوالات کے جوابات نہایت تحمل مزاجی سے دئیے جس سے اس سیشن کا عام آدمی پر عمومی تاثر برا نہ تھا اگر انہوں نے آیندہ بھی یہی روش جاری رکھی تو عوام ملک کو درپیش اہم قومی مسائل سے پوری طرح باخبر رہیں گے اور ان کے بارے میں ان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا انہیں تسلی بخش جواب ملتا رہے گا۔حاکم وقت کا اپنے عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنا بڑے فائدے کی بات ہوتی ہے کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ رپورٹوں میں بعض اوقات مکمل طور پر ان کے نوٹس میں زمینی حقائق نہیںلائے جاتے اور 'سب اچھا ہے' کی رپورٹ پر اکتفا کیاجاتا ہے عوام کے وزیراعظم کے ساتھ براہ راست رابطے سے حاکم وقت کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آ جاتا ہے اور اسے پھر درست فیصلے کرنے میں کافی آسانی ہوتی ہے یہ بات بھی البتہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام کی اس طریقے سے وزیراعظم صاحب سے رسائی ممکن بھی ہوسکے گی یا نہیں وہ لوگ البتہ یقینا خوش قسمت ہوں گے کہ جن کی وزیراعظم صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوگی یہاں پر ہمیں ایک پرانا قصہ یاد آ رہا ہے خیبرپختونخوا کے ایک سابق وزیر اعلی ڈاکٹر خان صاحب ایک روز اپنی سرکاری گاڑی میں قصہ خوانی بازار پشاور شہر کا چکر لگا رہے تھے جہاں پر وہ ایک جگہ رک کر اپنی گاڑی سے اترے وہاں پر کھڑے ایک تانگے کے کوچوان نے انہیں دیکھ لیا اور وہ فورا ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور ان کے گریبان پر ہاتھ رکھ کر غصے میں کہنے لگا کہ آپ نے آخر ہمیں کیا دیا ہے؟ اس پر وزیراعلی صاحب نے اس کو جو جواب دیا وہ پڑھنے کے قابل ہے انہوں نے اس کوچوان سے کہا کہ میں نے تم کو یہ آزادی دی ہے کہ آج تم اپنے وزیر اعلی کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس سے سوال کر رہے ہو اور اپنی فریاد سنا رہے ہو کیا اس سے بھلا کوہی بڑی شے میں آپ کو دے سکتا ہوں ؟یہ جواب سن کر وہ کوچوان لاجواب ہو کر ہکا بکا ہو گیا۔دنیا میں وہی حکومتیں کامیاب رہتی ہیں اور وہی حاکم درست فیصلے کرتے ہیں کہ جن کی انگلیاں عوام کی نبض پرہوں اگر حاکم وقت کسی بھی مسئلے پر عوام کے جذبات سے اچھی طرح باخبر ہوگا تو وہ کبھی بھی غلط فیصلے نہیں کرے گا گوکہ ہر ملک میں انٹیلی جنس کی مختلف ایجنسیاں ہوتی ہیں جو عوام کو درپیش مسائل سے حاکم وقت کو باقاعدگی سے مطلع کرتی رہتی ہیں پر دانشمند قسم کے حاکم کلی طور پر صرف ان کی رپورٹوں پر ہی یقین نہیں کرتے وہ ان کے علاوہ بھی عوام سے رابطے کے مختلف طریقہ کار دریافت کرتے رہتے ہیں تاکہ انہیں تصویر کے دونوں رخ معلوم ہوتے رہیں آج کے دور میں جبکہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا موجود ہے اور درجنوں کے قریب نجی ٹیلی وژن چینلز بھی مارکیٹ میں کام کر رہے اور آزادی صحافت بھی اپنے عروج پر ہے تو ان حالات میں تو اب انٹلیجنس ایجنسیوں کے لیے نہایت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ رپورٹنگ کے معاملے میں کسی جگہ کوئی ڈنڈی مار سکیں یا حاکم وقت کو تصویر کا صرف ایک ہی رخ دکھائیں اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کا جھوٹ فوری طور پکڑے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس ملک میں بعض ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جو ہر وقت اپنے آپ کو عوامی مسائل اور ان پر عوام کی رائے کے بارے میں باخبر رکھنے کی کوشش کرتے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو ان کا فرمان تھا کہ انہیں روزانہ صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کی ٹیبل پر دو صفحوں پر مشتمل ایک رپورٹ چاہئے چنانچہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا عملہ روزانہ صبح صبح ساڑھے سات بجے وزیراعظم ہاو¿س دو صفحات پر مشتمل پاکستان پریس رپورٹ کے عنوان سے ایک خصوصی رپورٹ بھیجا کرتا ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی میز پر صبح صبح شہر کے تحصیلدار کی ایک علیحدہ ر پورٹ پڑی ہوتی جس میں شہر میں بکنے والی مختلف اشیاءصرف اور اشیائے خوردنی کی قیمتیں درج ہوتیں ۔