از طلوع تا غروب۔۔

اب تو شہرِ نگار میں سڑکیں ہر جگہ بلاک ہوتی ہیں ۔ کوئی راہ نہیں جو آسان ہو۔جیسے کوئی دریا حائل ہو اور تیر کر پار اُترنا ہو۔اب تو پُل بھی بن گئے ہیں ۔ چھوٹے بڑے پل۔سڑکیں بھی کشادہ ہوگئی ہیں مگر یہ کیا کہ جو تنگی پہلے تھی وہی ہے۔راستے چھوٹے ہوئے جاتے ہیں ۔حوصلے کم ہوئے جاتے ہیں۔ آبادی جو کم تھی اس میں اضافہ ہوا جاتا ہے ۔یہ شہر جتنا وسیع ہو مگر اس کی تنگی داماںختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ روز گاڑیوں میں اضافہ ہو رہاہے ۔ایک لمحہ سگنل پر ٹریفک کے باوردی اہلکار کا سٹاپ ہونے کااشارہ ہوتو لائنیں لگ جاتی ہیں۔ڈیفنس کے باہر کی مین روڈ تو یوں بند ہو جاتی ہے جیسے انجو گرافی میں کسی مریض کے دل کی رگیں بند نظر آتی ہیں۔جیسے کسی بڑے اژدہا کو کسی سامری جادو گر نے ہاتھ دے کر روک دیا ہو ۔ وہ تلملا رہا ہو۔پھڑک رہاہو ۔ سب کو ثابت نگل لینے کے درپے ہو۔ ڈیفنس کی مین سڑک کے نیچے سروس روڈ کے بارے میں جن روز کے گذرنے والوں کو معلوم ہے وہ اس راہ سے ہو لیتے ہیں۔ان کو یہاں کافی گنجائش مل جاتی ہے ۔ وہ سینکڑوں گاڑیوں کو اوپر ہی کھڑے چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ان چور رستوں کے بارے میں زیادہ تر موٹر سائیکل سواروں کو علم ہوتا ہے ۔اب اس دن دل کے ڈاکٹر عدنان گل کی والدہ کی رحلت کے دوسرے دن دعا کر کے لوٹے تو اسی سڑک پر یوں الجھ گئے جیسے کسی بارہ سنگھے نے جنگل کی جھاڑیوں میں اپنے سینگ پھنسا لئے ہوں۔پھر ہم لوگوں میں صبر بھی تو نہیں۔ ہر گاڑی خواہ رکشہ ہے یا سائیکل بس آگے نکل جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ بڑی اور بیش قیمت گاڑی ہو تو اس کے بعض چلانے والے کا دل بہت چھوٹاہوتا ہے۔کیونکہ آخر جو بائیک پر سوار ہے وہ بھی پہلے انسان ہے اور جو گاڑی کو ڈرائیوو کر رہا ہے وہ بھی آدمی ہے۔ پھر بنی نوعِ انسان میں تو بے صبری بہت ہوتی ہے۔بوئنگ ہوائی جہا ز کا پائلٹ بھی تو انسان ہے ۔اگر وہ بھی پشاور کی سڑک کو رن وے سمجھ کر جہاز کو نیچے اتار کر دوڑائے تو اس میں بھی صبر نہیں ہوگا۔یا تو ہمارے شہر کے راستوں میں آسیب ہے یا پھر ان گاڑیوں میں باہر کی قوموں نے بے قراری کی چابی بھر دی ہے ۔شہر بھر کا یہی عالم ہے ۔ کوئی بھی سڑک ہو وہاں یہی اودھم مچا ہوا ہے ۔بندہ بندہ کو راستہ نہیں دیتا ۔ بڑی گاڑیوں والے حتیٰ کہ موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ضد پر اُتر آتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ شہر میں کسی راہ پر ٹریفک جام میں سے نکلیں ۔ پھرآپ کسی گلی کا انتخاب کر لیں کہ وہاں تو رش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مگر جام ٹریفک کو چھوڑ کر کسی بازو والی گلی کا سہارا لیا تو سوائے پشیمانی کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ وہاں اتنا رش ہوگا کہ آپ کو جمی ہوئی ٹریفک سے نکل کر گلی میں آجانے پر ندامت ہوگی۔پشاور میٹرو بھی شروع ہوگئی مگر رش کا عالم ہے کہ مائل بہ اختتام نہیں ۔ اس میں صبح نہیں شام نہیں ۔طلوع ِ آفتاب سے غروب ِ آفتاب تک ان سڑکوں پر یہی گورکھ دھندا رہتا ہے ۔اس رش میں وہ گاڑی انتہائی قابلِ توجہ ہے اور اس کے سوار بہت قابلِ رحم ہوتے ہیں جسے ایمبولنس کہتے ہیں۔ جو مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں پہنچانے کی جلدی کرتے ہیں۔اس رش میں جہاںکوئی کسی کی راہ نہیںسنوارتا وہاں ایمبولنس کی طرف ان کادھیان ہی نہیں جاتا۔ یہ بجتا ہواہیبت ناک سائرن کسی کے دل کو رحم آشنا نہیں کرتا۔ ان کی بلا سے اگر کوئی ہنگام گاڑی راستہ طلب کر رہی ہو ۔سوچیں آخر کون سا وقت ہوگا جب گاڑیوں کا رش نہ ہو ۔ مگرکس کو معلوم۔دوپہر ہو یا صبح ۔ یا پھرشام کی دھواں دار فضاہو ہر وقت یہی خرابی ہے ۔ مشہور سکولیں ہیں اور یونیورسٹیاں ہیں۔دوپہر کو اس رش کی راہ میں مزید کانٹے بچھانے والی ان کی بسیں ہیں۔وہ بھی اپنا راستہ نکالنے کوتیزی دکھلاتی ہیں ۔ جن کے پیچھے ٹیلی فون نمبر بھی لکھے ہوتے ہیں کہ اگر ڈرائیور کی غلطی دیکھیں تو اس نمبر پر اطلاع کریں ۔ مگر کون انھیں مطلع کرے گا۔ کیونکہ ہم میں ایک یہ احساس بھی پختہ ہو چکا ہے کہ کسی کی شکایت کرو تو اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ۔بس یہ دکھاوا ہے ۔خود تھانے میں کسی کی رپورٹ درج کروا¶ تو آسانی سے رپورٹ بھی تو لکھی نہیں جاتی۔جانے وہ کون سا دن ہوگا جب شہرِ سبزہ و گل کی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہوگی ۔اب تو نہ جمعہ ہے نہ اتوار ہے بس سڑکوں پر ٹریفک کے رش کا بازار ہے اور ٹریفک کھل جانے کا انتظار ہے ۔پھر اس رش اور بے ہنگم روانی میں ناکوں نے بھی خلل ڈال رکھا ہے ۔ کہیں اگر ٹریفک ملائم ہوئی وہاں اچانک سے ناکہ بندی آگئی ۔ پہلے کے ایک چیف جسٹس ثاقب نثار نے تمام ناکہ بندیاں اٹھوادی تھیں۔ مگر جب وہ خوداس عہدے کی کرسی سے ریٹائر ہوئے تو اس کے بعد اب پھر سے وہی راہ میں حائل یہ ناک میں دم کر دینے والی ناکہ بندیاں اُگ آئی ہیں۔جو بھی ان راہوں سے آتا ہے یا جاتا ہے وہ بس آتا جاتا ہے ۔ کسی کو شہرِ دلبر کی پروا ہی نہیں۔کسی کو چاہ ہی نہیں کہ اس خلل کی شکار روانی کو رواں دواں کرے ۔