بد قسمتی۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں اگر کوئی طرز حکومت بہتر نتائج دے سکتا ہے تو وہ جمہوریت ہی ہے تاہم بد قسمتی سے ہمارے ہاں نتائج کچھ مختلف نظر آتے ہیں۔دیکھا جائے تو پاکستان میں جمہوریت اور آمریت نے سالوں حکومت کی ۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہاں کون سا نظام بہتر رہے گا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ اس ملک میں اگر کچھ ترقی ہوئی ہے تو وہ آمریت کے دوران ہی ہوئی ہے۔بڑے منصوبے پروان چڑھتے ہیں تو بھی اس دور میں جب جمہوریت نہیں ہوتی ۔کیونکہ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو یہی دیکھا گیا ہے کہ اس دوران سیاست دانوںنے ایک دوسرے کی ٹانگیں ہی کھنچی ہیں اور کسی نے ملک کی ترقی کے بارے میں کم ہی سوچا ہے ۔ادھر ایک پارٹی جیت کر حکومت بنانے جاتی ہے تو دوسری پارٹیاں اُس کے پیچھے لگ جاتی ہیں ۔ حکمران پارٹی سارا وقت اپنی حکومت بچانے میںہی لگی رہتی ہے اور اس کو ملک کی بہتری کےلئے سوچنے کا کم ہی وقت ملتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آمریت کو جتنا بھی وقت ملا اس کو ایک عرصے تک چھیڑنے والا کوئی نہیں تھا اس لئے اس زمانے میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کاموں کی جانب توجہ دی گئی ہے اور مختلف ترقیاتی کام کئے گئے ہیں ۔چونکہ اسے بین الاقوامی قبولیت حاصل نہیں ہوتی اسلئے پھر جمہوری حکومتوں کو موقع مل جاتا ہے اور عوام بھی تبدیلی کے حق میں ان کا ساتھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں تاہم نتیجہ اس کا یہ سامنے آجاتا ہے کہ عوام نعروںمیں گم ہو جاتے ہیں اور عوام کو جمہوریت میں ہی اپنا سب کچھ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ عوام اپنی اپنی پارٹیوں کے نعرے لئے میدان میں اترتی ہے اور جن سیاست دانوں سے ان کی جان چھوٹی ہوتی ہے وہ پھر سے نئے نعرے لے کر میدان میں اترتے ہیں اور کچھ دنوں کے لئے عوام بھول جاتے ہیں کہ ان سیاست دانوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ پھر سے عوام ان نعروں کے پھندے میں آ جاتے ہیں اور ایک جمہوری حکومت معرض وجود میں آجاتی ہے۔ اب چونکہ کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی اس لئے سیاست دان الیکشن میں خرچ کیا گیا پیسہ کہ جو انہوں نے عوام کے کھانے وغیر ہ میں خرچ کیا تھا اُس کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اپنے اقتدار کے سارے عرصے میں وہ اپنا خرچہ بمع سود حاصل کرنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور ملکی ترقی کی جانب کم ہی نظر جاتی ہے ۔ یوں ملکی ترقی کو بریک لگ جاتے ہیں اور عوام ایک دفعہ بھی پرانا رونا رونے میںلگ جاتے ہیں۔ہر دفعہ کہ الیکشن ہوتے ہیں عوام ایک نئی امید کے ساتھ ایک پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت پر بٹھاتے ہیں اور پھر سے وہی عمل شروع کو جاتا ہے۔ جیتنے والے اپنا خرچہ نکالنے لگے رہتے ہیں اور عوام ان کا خرچہ پورا کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ ووٹ مانگتے وقت جو آپ کے کاموں کا دم بھرتے تھے ان تک پہنچ بھی مشکل ہو جاتی ہے اور عوام کے مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اس لئے کہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرنے والوں کو کوئی وعدہ یاد نہیںرہتا اور ان کو وعدہ یاد کروانے والوں کو ان کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ نتیجے میں مسائل اپنی جگہ ہی رہتے ہیں بلکہ ان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک نئی حکومت کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی کچھ آج تک ہوتا رہا ہے اور کسی کو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ وہ عوام کے ساتھ کیا کیا وعدے کر کے اقتدار میں آئے ہیں۔