خواتین کے بازار۔۔۔۔

یہاں کون سا بازار ہے جہاں کاندھے سے کاندھا نہ ٹکراتا ہو۔ خاص طور پر خواتین کے بازار میں تو سوئی گرانے کی جگہ نہیں ہوتی وہاں مرد حضرات بھاری تعداد میں موجود ہو تے ہیں ۔یہاں مردوں کا کیا کام ۔ یہاں جن لوگوں کے گھر ہیں وہ تو چلو معاف ہیں۔ مگر جو نہ تو سودا لیتے ہیں اور نہ ہی وہاں کسی رشتہ دار کے ہاں آئے ہوتے ہیں۔ وہ مرد یہاں رش کی بہت بڑی وجہ ہیں ۔ جوںہشت نگری دروازے سے معاملہ شروع ہوتا ہے تو رامداس گیٹ تک یہ بازار تا حدِ نگاہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میںزیادہ تر خریداری خواتین کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مینا بازارکو لیں وہاں دن چڑھے خواتین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔جو شام گئے تک جاری رہتا ہے۔ آر پار جن کے مکانات ہیں وہ مرد تو آ تے جاتے ہوئے برے نہیں لگیں گے۔ مگر یہاں بلاضرورت آوارہ گردی کرتے ہوئے ہر عمر کے مرد حضرات آپ کو خواتین سے زیادہ ملیں گے۔پھر ان بازاروں میں جہاں پہلے ہی رش اور ساتھ ساتھ کھڑے مکانات کی وجہ سے راہداری تنگ ہے ۔وہاں موٹر سائیکل بھی گھسے ہوتے ہیں۔پھر موٹر سائیکل کا تو ذکر کیا وہاں گاڑیاں بھی آتی جاتی ہیں۔ جو لوگ ان بازاروں میں خریداری کے لئے آتے ہیں انھیں چاہئے کہ گاڑی کو بازارسے باہر کہیں پارک کر دیں۔ ہماری ایک رشتہ دار خاتون کو خاص کریم پورہ کے تنگ بازار اور رش میں ایک گاڑی نے ایسی ٹکر ماری دی کہ وہ ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ سال بھر بستر سے لگی رہیں۔میں تو کہتا ہوں یہاں غیر متعلقہ مردوں کا داخلہ بندکر دیاجائے۔ جیسے عید کی راتوں میں ان بازاروں کے باہر پولیس کارندے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ۔اسی طرح کا کوئی انتظام بنا نا چاہئے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو ان بازاروں میں ہمہ وقت پولیس کے سپاہی نگرانی پر معمور کر دیئے جائیں۔ جو ہر آتے جاتے ہوئے پر بھرپور نظر رکھیں ۔بلکہ اس قسم کے ہر بازار کے اندر ایک آدھ پولیس چوکی ہونی چاہئے۔ صدر میں خواتین کابازار ہے اور حیات آباد تک اس قسم کے بازاروں میں مصنوعی رش ہوتا ہے ۔ جو کچھ نہیںخریدتے وہ بھی یہاں گھسے ہوتے ہیں ۔ موٹرسائیکلوں پر پابندی ہونی چاہئے ۔ رکشوںکا داخلہ بند ہوناچاہئے۔ہشت نگری کے اندر چوک شادی پیر ہے پھر کریم پورہ بازار اور اس کے ساتھ شاہین بازار ہے ۔یہاں تو عورتوں کے جھرمٹ ہوتے ہیں۔ پھر چار قدم آگے مینا بازار اور پھر کوچی بازار آگے چاہ شہباز اور پھرکوہاٹی بازار تک خواتین ہوتی ہیں۔کوہاٹی سے اوپر اندرون سرکی اور پھر یہ سلسلہ رامداس بازار تک چلاجاتا ہے ۔ان بازاروں کے دائیں بائیں بھی اور بہت رش والے بازار ہیں ۔مگر بات خواتین کے بازاروں کی ہے۔نوتھیہ ، صدر لنڈا بازار حیات آبادتک پھر گورا بازار میں زیادہ تر آپ کو خواتین ہی خریداری میں مصروف ملیں گی ۔مگر یہاں ان کے ساتھ مردوں کا بھی تانتا بندھاہوتاہے جن کا وہاںنہ گھر ہوتا ہے اور نہ کوئی کام ہوتا ہے۔پھر نہ وہ اپنی خواتین کے ساتھ آئے ہوتے ہیں۔ ان بازاروں میں آوارہ گردی کامعاملہ سالہا سال سے جاری ہے ۔یہ مسئلہ اب تک کوئی حکومت حل نہیںکرپائی ۔جہاں سرکار کے اور ضروری کام ہیں وہاں یہ کام بھی ضروری ہیں۔پولیس کارندوں کی نگرانی سے اس فتنہ پر قابو پایاجا سکتا ہے ۔سستا بازارہو یا جمعہ بازار یا اتوار بازار ہو۔ہفتہ بھر یہ بازار سرگرم رہتے ہیں۔ جمعہ کو اتوار بازار لگتاہے اوراتوار کو جمعہ بازار لگاہوتا ہے۔مگر رش اس لئے کہ یہاں عورتیں کم اور مرد حضرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ضرورت ہے کہ کوئی نقشہ بنانا چاہئے۔کوئی منصوبہ بندی ہو۔کیونکہ خواتین کی پے در پے شکایات ہیں جن کاازالہ ابھی تک نہیں ہو پایا کچھ بازار آوار ہ گردی کے کارن اتنے بدنام ہیں کہ بھلے چنگے مرد لوگ بھی اگر وہاںسے گذریں تو ان پر شک گذرتا ہے کہ یہ کسی اور مقصد کے تحت یہاں گھوم رہے ہیں ۔ہم چوک ناصر خان میں رہتے تھے تو وہاں سے پیدل گورنمنٹ کالج فقیر آباد تک ڈیوٹی کے لئے روز آتے جاتے۔ پھر روز اسی مینا بازارسے گذرنا ہوتا۔ اس واحد بازارسے ہم بہت کتراتے تھے ۔مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگ کے سمندر میں سے گذرنا ہوتا ۔ کیونکہ شارٹ کٹ یہی تھا۔ وگرنہ اور راستے بھی ہیں مگر وہ خاصے لمبے پڑتے ہیں۔ اس بازار میں اتنا رش ہوتا کہ ہم دل میں اپنی خیر مانگتے کہ کہیں شرارت کسی اور کی ہواور ہم بلاوجہ منہ میںکسی خاتون کا چانٹاکھا لیں ۔پھر ہمیں کسی شاگرد نے یہاںدیکھ لیا تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔