دو اہم خبریں 

 یوں تو آج کئی نئی خبریں غور طلب ہیں پر ان سب پر ایک ہی کالم میں تبصرہ کرنا ممکن نہیں اس لئے ہم ان میں سے صرف دو خبروں پر پر اپنے قارئین کے ساتھ آج اپنے خیالات شیئر کریں گے‘اگلے روز قومی اسمبلی میں کئی اراکین کے درمیان ہلڑبازی ہو ئی اور ان کے درمیان دھکم پیل کے دوران کئی ارکان گر پڑے‘ڈپٹی سپیکر کا مائیک اتارنے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں جھڑپ ہوئی ارکان سیٹیاں بجاتے رہے اور بینرز لہراتے رہے سپیکر کو مجبوراً 20 سارجنٹس کے حفاظتی حصار میں کاروائی چلانی پڑی۔ پاکستان کے بشمول تیسری دنیا کے تقریبا ًان تمام ممالک کا یہ المیہ ہے کہ جن میں پارلیمانی جمہوریت چلائی جا رہی ہے کہ وہاں پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا رہا ان تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ منتخب اسمبلی کے ہر نمائندے کو بغور سنا جائے کہ اس کا مدعا کیا ہے اور وہ کونسی بات حکومت کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے‘اسی طرح اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اپوزیشن کے اراکین کا بھی اپنے اوپر حزب اقتدار کے اراکین کی طرف سے ہونے والی تنقید سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے‘بدقسمتی سے اس خطے میں پاکستان ہو کہ بنگلہ دیش یا بھارت یا وسطی ایشیا کا کوئی ملک ان کی پارلیمنٹ میں ان کے اکثر اراکین میں حوصلے کا فقدان ہے ایک دوسرے کے ساتھ مشت و گریبان ہونا حتیٰ کہ ایک دوسرے پر کرسیاں پھینک کر ان کا سر پھاڑنا ان کا محبوب مشغلہ ٹھہرا ہے‘مشہور فلسفی والٹیئر کا ایک بڑا معنی خیز جملہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ میں تمہاری ہر بات سے اتفاق کروں پر جہاں تک تم کو اپنی بات کہنے کا حق ہے میں اس حق کی حفاظت کروں گا بھلے اس کے لئے مجھے اپنی جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے اصولی طور پر کسی بھی ملک کی مقننہ میں معاشرے کے ہر لحاظ سے صرف بہترین افراد کوہی براجمان ہونا چاہئے وہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ و ارفع ہوں وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہوں ان کی سوچ پاکستانیت پر مبنی ہو ان میں کتابیں پڑھنے کا ذوق وشوق ہو ان کی تاریخ پر گہری نظر ہو وہ کسی مالی بد دیانتی کے سکینڈل میں ملوث نہ رہے ہوں وہ اپنی ذات پر تنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہوں اگر آئین میں سینٹ کے الیکشن کے لئے اوپن بیلٹ کی کوئی گنجائش نہیں تو پارلیمنٹ مناسب ترمیم کرکے سینٹ کے الیکشن میں اوپن بیلٹ کی شق شامل کر سکتی ہے‘ہمارے معاشرے میں کئی ایسے افراد اور طبقے موجود ہیں کہ جنہوں نے ناجائز اور غیر قانونی طریقوں سے بہت بڑا دھن اور مایا کمایا ہے اور وہ ارب پتیوں بلکہ کھرب پتیوں کی کلاس میں شامل ہو چکے ہیں‘یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر وہ ایوان اقتدار کے کسی اہم حصے کے رکن بن جائیں تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ ان کو اپنی دولت بچانے کے لئے ایک بہت بڑا تحفظ مل جائے گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے یہ ریمارکس کہ۔ سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہئے بڑی غور طلب بات ہے۔ انہوں نے ایک نہایت اہم بات کی نشاندہی کر دی ہے اب یہ عوام کا کام ہے اور خصوصاً ان کے نمائندوں کا کہ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے اندر انٹراپارٹی الیکشن کا ایسا نظام مرتب کریں کہ جس میں سیاسی پارٹیوں کے اندر ڈکٹیٹرشپ کا کلچر نہ پنپ سکے یہ کوئی مشکل بات نہیں۔