تشدد کا رجحان۔۔۔

ہمارا مذہب ہمارے بزرگ یہی درس دیتے ہیں کہ اپنی زندگی صبر و تحمل سے گزارنے کی عادت بنائیں تاکہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ بحیثیت سوسائٹی صبر و تحمل کا ماحول قائم رہے۔ تاہم وطن عزیزمیں اگر معاشرتی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو لگے گا کہ تشدد ہی واحد راستہ رہ گیا ہے کہ زندگی کے روز مرہ مسائل کا حل نکالا جائے ‘ وہ بزرگ جنہوں نے اس ملک کا ابتدائی دور دیکھا ہے وہ تسلیم کرینگے کہ نوزائدہ ملک ہونے کے باوجود بھائی چارے کی فضاءزندگی کی ہر سطح یہ نمایاں پائی جاتی تھی امن کا یہ حال تھا کہ گشت پر موجود پولیس کانسٹیبل کے پاس نہ تو پستول اور نہ بندوق ہوتی تھی بلکہ ایک عدد بیٹن ( چھوٹا ڈنڈہ) اس کے کمر بند پیٹی میں لگا ہوتا تھا‘ قانون کی پاسداری رکھتے ہوئے نہ تو بائسیکلز پر ڈبل سواری دیکھی جاسکتی تھی اور نہ بغیر لائٹ کے رات کی تاریکی میں یہی سواری چلتی تھی آہستہ آہستہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان جنم دینے لگا اسی دور میں دوسری جانب مغربی ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ کےلئے فضاءقائم کرنے کےلئے اقدامات کئے جارہے تھے۔ 1979 ءکے افغان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے اور معاشرے میں اسلحے کی نمائش شروع ہوئی۔جس سے خوف و ہراس کی فضاءپروان چڑھی، 2014 ءکے بعد فوجی آپریشن کے نتیجے میںامن قائم ہو ا تاہم کئی دہائیوں کا اثر یہ رہا کہ تشدد کا مزاج “پوری پاکستانی قوم میں پھیل گیا۔ وکلاءبرادری قانون کی پاسبان ہے تاہم اپنے مطالبات کو منوانے تشدد کار استہ اختیار کرتی رہی ہے ،یہ بات محض وکلاءتک محدود نہیں بلکہ ڈاکٹر ہوئے کہ اساتذہ کرام سب کے صبر کاپیمانہ جلد لبریز ہوجاتا ہے۔۔ طلباءکی کریم میڈیکل کالجوں میں شامل ہوتی ہے ڈاکٹر بننے کے بعد انہیں مسیحا کے طور پہچان دی جاتی ہے کیونکہ ا ن کے ہاتھوں میں انسانی جان کا تحفظ ہوتا ہے مطالبات منوانے کےلئے سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال کر کے حکومت سے مطالبات منوا لیتے ہیں دوسری جانب مریض اور ان کے لواحقین کو ہڑتالی مدت میں جو اذیت ملتی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ الغرض طلبہ تنظیمیں‘ سرکاری ملازم ہوں یا پھر سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے کےلئے یہی طرز عمل اپناتی ہیںکہ پبلک شاہراہ کوبلاک کر کے وہاں دھرنا دے دیتے ہیں ۔ آمد و روفت میں خلل سے لوگوں کو کیا تکلیف ہوتی ہے اس سے کوئی سروکار نہیں ‘ اسی قسم کے واقعات سے تشدد کو فروغ ملتا ہے۔