ماحول کو کیسے بچائیں؟

رکشے مگر خرخراتے ہوئے۔دھواں چھوڑتے۔بے پرواہ۔ بلکہ لا پرواہ۔جن شہریوں کے پاس سے گزرتے ہیں ان کے ناک میں دم کرجاتے ہیں۔شہر کو خوب پامال کر رہے ہیں۔ بے حال کر رہے ہیں۔سائلنسروں سے نکلتی ہوئی تیز آواز۔ جیسے انھوں نے سائلنسر نکال دیا ہو۔ مگر نہیں سائلنسر موجود ہو تاہے۔ بس اس کو انجن سے دو تین انچ پیچھے کر کے نصب کرتے ہیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔دیکھنے والے کہیں سائلنسر لگا ہے لیکن آواز خوب جما کر ہو ٗ یوں کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگیں۔مگر اس پر کیا فخر کرنا۔ یہ تو پبلک کی بد دعائیں لینے والا کام ہے۔جس کو ستا کر گزرتے ہیں اس کی زبان سے الفاظ کی کوئی نہ کوئی ادائیگی تو ہوتی ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔آلودگی ایک طرح کی تو نہیں ہوتی۔ آلودگی تو اصل میں ملاوٹ کا نام ہے۔ اگر ہوا ہے ترو تازہ ہے اور آکسیجن سے بھرپور ہے تو اس میں یہی لوگ دھوئیں کی ملاوٹ کر کے اس خالص آب ہوا کو ناقص کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو ناخالص چیز ہو وہ انسانی صحت کے لئے نقصان کرتی ہے۔اب خاموشی بھی قدرت کاایک انمول تحفہ ہے۔اگر اس میں پرندے اپنی اپنی آواز میں گیت گاتے ہیں تو کیا اچھا ہے۔ایک آئیڈل ماحول کی عکاسی ہے۔جیسے اوپری علاقوں میں ٹھنڈے ٹھار بادلوں کے نیچے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں میں پپیہا پی پی کرے کوئل کو کو کرے۔یہ کانوں میں رس گھولتے ہیں۔مگر اس فضاء میں اگر رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی ٹرار ہو تو کیا یہ ماحول خالص رہے گاٗ پانی کا اصل ہونا۔ پھر اس میں ملاوٹ نہ ہونا بھی ماحول کی آلودگی کا خاتمہ ہے۔مگر ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہے۔یہاں تو شہری علاقوں میں نالے کے اندر سے گزرنے والی پائپ لائن کے ساتھ گٹر کا گندا پانی بھی موجود ہوتا ہے۔جو پائپ کے سوراخوں میں سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔جس سے گھروں میں موجود رہائش پذیر لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔اگر اس گھر میں بچے ہو تو وہ پولیو کا شکار ہوں گے۔ پھر کمزوری کے کارن ان میں کورونا وائرس کو اپنی جگہ بنانے کا بھرپور موقع ملتاہے۔بیماریاں گھروں میں اپنے گھر بنا لیتی ہیں۔ہمارے ہاں شہر میں پانی تو صاف ستھرا اور چاندی جیسا جھلکتا ہوا چمکتا ہوا آنکھوں کو تراوت اور ٹھنڈک دیتا ہوا ہے۔مگر اس میں کیا معلوم کون سے گٹر کا پانی مکس ہوچکا ہے۔پھر وہ ہمارے کچن تک پہنچ رہاہے۔سارا دن کی ٹریفک کی روانی سے پیدا ہونے والی گرمی ہمارے ماحول کی یخنی کو کھا جاتی ہے۔جیسے کوئی اژدہا کسی بکری کو ثابت نگل جائے۔ ہمارے ماحول کی ہوا اور فضاء تازہ ہے۔ مگر سارا دن کی ٹریفک میں گاڑیوں کی گرمی ان کے انجن سے آتی ہوئی گرم لو ہمارے گردو پیش کو برباد کر کے چلی جاتی ہے۔پھر گاڑیوں کے دھوئیں اور ایک نہیں لاکھوں گاڑیوں کے دھوؤں کے مرغولے ہیں۔ جوہوا میں مل کر آدمی کو سانس لیتے ہوئے موذی بیماریوں کا شکار بنا جاتے ہیں۔پھر ہماری ارضِ وطن کے معاشرے کی آبادی کم تو نہیں۔ یہ آبادی کا زیادہ ہونا اور گلی کوچوں کا روز بروز تنگ ہو کر تاریک ہونا ایک الگ نقصان ہے۔ جہا ں جہاں گاڑیاں ہیں وہاں وہاں انسانوں کا سیلاب بھی تو ہے۔ان انسانوں کے جسم سے بھی گرمی اور تپش نکلتی ہے جو ماحول کو گرم کردیتی ہے۔ایک کمرے میں جتنی زیادہ چیزیں ہوں وہ ساتھ والے دوسرے کے بہ نسبت جو خالی ہو زیادہ گرم ہو گا کیونکہ ہر چیز سے ہیٹ نکلتی ہے۔اب اگر کمرے میں بندے بھی زیادہ ہوں تو وہ کمرہ گرم ہوگا۔ اسی طرح ہمارے شہر میں جو رش ہے وہ شہر کے موسم کو گرم کرتا ہے۔ پھر وقت سے پہلے گرما کے تھپیڑے سہنے پڑتے ہیں۔ یہ کہنے والے کم ہو رہے ہیں کہ ”تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے۔ میں ایک شام چرا لوں اگر برانہ لگے“۔جتنی بھی شامیں چرا لوہمیں برا نہیں لگے گا۔ بلکہ اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ شامیں آنکھوں میں ٹھنڈ ک کا باعث تو نہیں رہیں۔ یہ تو آنکھوں میں رکشوں اور گاڑیوں کا دھوا ں بھر کر آنکھوں کو سرخ کر دیتی ہیں۔سانس کے اور آنکھوں کے امراض جلدی جلدی شہریوں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیتے ہیں۔آبادی کے زیادہ ہونے سے بھی ماحول کی آلودگی جنم لیتی ہے۔ ہمارے ہاں اس آبادی کو کنٹرو ل کرنے اور اس کو خوراک مہیا کرنے کے ذرائع روزبروز کم سے کم ہو رہے ہیں۔ ہم کیا بیچتے ہیں جس کو دوسرے ملک خریدتے ہیں۔ تاکہ ہماری آمدنی میں اضافہ ہو۔ہماری تو کمائی ہے ہی نہیں۔ہاں قرضہ ہے اور پھر قرضہ ہے۔ پھر اس قرضے کو جھٹلانے کے لئے ایک اور قرضہ ہے۔سو طرح کے قرائض ہیں اور ہم ہیں دوستو۔یہی سب کچھ ماحولیاتی آلودگی میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتا ہے۔شور ہے ہوا میں گندگی ہے بلکہ گندگیاں ہیں۔پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ ہے۔ گاؤں اور دیہات میں تو چالیس فٹ نیچے پانی موجودہوتا ہے۔ کنوؤں اور باؤلیوں میں سے اگر پانی نکلتاہے تو اکثر ذائقہ دار اور ماٹی ملا پانی ہوتا ہے حالانکہ پانی کا میرٹ یہ ہے کہ اس کا کوئی ذائقہ نہیں ہونا چاہئے۔