اول خویش۔۔۔۔۔۔

پاکستان سپر لیگ کے باقی میچز ابو ظہبی میں ہونے کے معاملات طے ہوگئے ہیں اور جون کے مہینے میں ان میچز کے انعقاد کاامکان ہے۔ بعض دفعہ ہمیں اپنے صاحبانِ اختیا ر کے فیصلوں پر حیرت ہوتی ہے کہ جب آپ کے پاس ایک کام کے کرنے کو ہر قسم کی آسانیاں اور سہولتیں میسر ہیں تو پھر آپ اپنے کاموں کے لئے باہرکے ملکوں کی محتاجی کیوں لیتے ہیں۔ جب آپ ایک ایسے کاموں کیلئے اپنے ملک سے باہر نکلتے ہیں کہ جن کیلئے آپ کوہر قسم کی سہولت اپنے ملک میں میسر ہے اور اس کیلئے آپ کوبا ہر کے ملک کی سو سو منتیں کرنی پڑتی ہیں اور اگر وہ چا ہے تو آپ کو منع بھی کر لیتے ہیں اور آپ کا کرنے کا کام رہ جاتا ہے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے کہ جس کیلئے آپ کے پاس ہر طرح کی سہولتیں مو جود ہیں۔ آپ کے پاس کرکٹ کے عالمی سٹینڈرڈ کے میدان موجود ہیں آپ کے پاس ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔ آپ کے پاس میدانوں میں ہر طرح کی سہولیات جو کہ ایک انٹر نیشنل میچ کیلئے ضروری ہیں وہ بھی موجود ہیں اور آپ کے پاس بہترین اور پر امن تماشائیوں کی بھی کمی نہیں ہے تو پھر اپنے کرکٹ کے میچ کسی دوسرے ملک میں کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ٓپ کے گراؤنڈ انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کے نہیں ہیں؟ کیا ٓپ کے تماشائیوں کی تعدد اور ان کی داد دینے کی صلاحیت کسی بھی ملک کے تماشایوں سے کم ہے۔کیا آپ کواپنے میدانوں میں وہ آسانیاں نہیں مل سکتیں کہ جو باہر کے ملکوں میں ملتی ہیں۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو کیوں ہمارے ملک کے تماشائیوں کو اپنے کھیل دیکھنے سے محروم کیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کی بات ہے تو جو معاوضہ آپ اپنے کھلاڑیوں کو باہر لے جا کر دیتے ہیں اور معاوضے کے علاوہ بہت سے اخراجات اپنے کھلاڑیوں پہ کرتے ہیں کہ جو ناجائز ہیں تو پھر یہ ٹورنامنٹ آپ اپنے ملک میں کیوں نہیں کرتے۔ آپ کے میچوں کو دوبئی وغیرہ میں کروانے سے آپ اپنی ایک بہت بڑی تعداد کو کھیل دیکھنے سے محروم کرتے ہیں۔ او رساتھ ہی آپ کو بلا وجہ دوسرے لوگوں کے احسانات اٹھانے پڑتے ہیں اور جو کچھ آپ کے ملک کو مل سکتا ہے اس سے آپ اپنے ملک کو بھی محروم کرتے ہیں اور اس سے آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا آپ سے میر ا مطلب ہمارا کرکٹ بورڈ ہے۔ اگر یہی میچز ہمارے اپنے ملک میں ہوں تو اس سے کتنا فائدہ ہو گا اس کا بھی سوچا کریں۔ ایک ہمارے کرکٹ کے شایقین جو ملک سے باہر اپنی ٹیم کی کارکردگی کو نہیں دیکھ پاتے اُن کو آپ ایک انٹرٹینمنٹ سے محروم کرتے ہیں۔ اب ہر تماشائی ابو ظہبی وغیرہ تو نہیں جا سکتا۔ جب کہ اُس کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کی کارکردگی کو دیکھے اور اس سے محظوظ ہو۔ اگر ہمارے میدان اس قابل نہ ہوتے کہ ان میں کوئی انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کامیچ نہ ہو سکتا تو دوسری بات ہے یا ہماری ٹیموں کو تماشائیوں کی کم تعداد ملتی تو بھی بات تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری ٹیم ملک سے باہر اپنے ہی میچ کیوں کھیلتی ہے۔ ہاں اگر کسی دوسرے ملک کا ٹورنامنٹ ہو اور آپ اس میں بلائے جائیں تو اور بات ہے مگر میچز پی سی بی کے ہیں اور اس کیلئے پی سی بی کے پاس اپنے سٹینڈرڈ کے میدان بھی موجود تو پھر ابوظہبی میں جا کر میچ کھیلنے کی کیا تک ہے۔ کیا ہمارے سارے تماشائی اپنی ٹیم کے میچ ابو ظہبی میں جا کر دیکھ سکتے ہوں تو بھی کوئی بات ہے مگر خواہ مخواہ اپنے تماشائیوں کو اپنے میچ دیکھنے سے محروم کرنا تو نہیں بنتا نا جو معاوضہ آپ اپنے کھلاڑیوں کو ابوظہبی میں دیتے ہیں وہ معاوضہ ان کو اپنے ملک میں دیں اور جو معاوضہ آپ دوسری ٹیموں کو ابوظہبی میں دیتے ہیں وہ ان کو اپنے ملک میں دیں تو اس سے ہمارے نوجوانوں کو اپنے ملک میں ٹیموں کو کھیلتے دیکھنے کا موقع کیوں نہ ملے۔ ہم تو یہ ہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارا کرکٹ بورڈ کس قسم کے خیالات رکھتا ہے کہ وہ اپنے تماشائیوں کو اپنی ٹیم کا کھیل دیکھنے سے محروم رکھتا ہے اور دو سرے ملکوں سے گراؤنڈ مستعار لینے کیلئے بھی منت سماجت یا لالچ وغیرہ کا انتظام تو کرنا ہی پڑتا ہو گا۔ اور ان ٹیموں کیلئے معاوضہ بھی دینا پڑتاہو گا۔