موروثی سیاست۔۔۔۔۔۔۔۔

آئے روز مختلف سنگین جرائم کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں تاہم ان جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی فالو اپ سٹوریز بہت کم سامنے آتی ہیں۔ تحقیقی صحافت کرنے والے جس کسی نے بھی اس کرائم کا انکشاف کیا ہوتا ہے وہ خود بھی اس پر فالو اپ ایکشن لینا بھول جاتا ہے اس ضمن میں ایک نہیں سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں اس جملہ معترضہ کے بعد آئیے اب ان چند اہم قومی اور بین الاقوامی امور کا ذکرہو جائے کہ جن کا تعلق کسی نہ کسی انداز سے وطن عزیز کے ساتھ ہے پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے اس معاملے کو نہایت سیاسی بصیرت اور افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنا ضروری ہے یہ ایک معاشی مسئلہ ہے اور اس پر کسی فریق کو بھی سیاست کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے یہ ملک پہلے ہی سے کئی مسائل کا شکار ہے اور اب یہ کسی نئے مسئلے کا متحمل نہیں ہو سکتا بادی النظر میں اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ پیمائش آ ب کیلئے کسی نیوٹرل امپائر کو تعینات کیا جائے۔وزیر اعظم صاحب کی یہ بات قابل فہم ہے کہ مغرب کی بات پرانی ہو چکی اب ہمیں چین سے سیکھنا ہوگا اور اس کی طرح اقتصادی زونز بنانے ہوں گے جو سرمایہ کار بنگلہ دیش دبئی اور ملائیشیا میں فیکٹریاں لگاتے ہیں وہ آخر یہاں کیوں نہیں لگا سکتے پر ان کو پاکستان کی طرف راغب کرنے کیلئے ہمیں ان کو بزنس کے لحاظ سے پرکشش مراعات فراہم کرنا ہوں گی کوئی بھلے اس بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے پر یہ حقیقت ہے کہ چین کے حکمرانوں نے اپنی حکمت عملی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ جمہوریت کے بغیر بھی ایک سخت گیر قسم کے مرکزی نظام حکومت کے تحت بھی حیرت انگیز ترقی کی جاسکتی ہے ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور غریب اور امیر کے درمیان فرق کو مٹایا جا سکتا ہے ایک بین الاقوامی سطح کے ادارے کے سروے کے مطابق گو کہ چین میں اس قسم کی جمہوریت نہیں کہ جس طرح مغرب میں ہے پر وہاں عام آدمی کی زندگی کافی آسودہ ہے اور وہ ذہنی طور پر خوش حال ہے جب کہ مغرب خصوصا امریکہ میں جمہوریت بھی ہے اور لوگ انسانی حقوق کے پرچارک بھی پر وہاں کے لوگ اتنے خوشحال نہیں کہ جتنے چین میں بسنے والے لوگ ہیں۔اب بات کی جائے سیاسی حالات کی تو اس وقت پی ڈی ایم کی تیاریاں اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیانات کی گرما گرمی جاری ہے۔ شہباز شریف صاحب نے کہا ہے کہ مریم نواز کو سیاست کے میدان میں ابھی گرومنگ کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو مریم نواز اور بلاو ل بھٹو کی آپس میں بیان بازی نے ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھا دیا ہے اور اب یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی زد بن گئی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہر شعبہ زندگی میں تربیت اور مخصوص مدت تک ٹریننگ کے بعد ہی کوئی کامیابی مل سکتی ہے تو سیاست کی دنیا میں کیسے بغیر کسی تربیت کے راتوں رات ایک بڑی سیاسی جماعت کے معلات کسی کے ہاتھ میں دئیے جا سکتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ کوئی بھی اہم ترین عہدے پر جانے کیلئے سیاست کی دنیا میں ایک طویل مدت گزارے تو طویل تجربے کے بعد ہی اسے اہم ذمہ داری سونپی جائے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس قسم کا سیاسی کلچر ناپید ہے آپ کو یقیناَ پتہ ہو گا کہ کسی بھی صورت میں سول سروس میں اسسٹنٹ کمشنر کی کی پوسٹ پر کام کرنے والے کسی اہلکار کو ڈائریکٹ کمشنر نہیں لگایا جاتا نہ ہی کسی سول جج کو ڈائریکٹ ہائی کورٹ کا جج بنایا جاتا ہے اونچے مقام تک پہنچنے کیلئے ان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مختلف نوعیت کے امتحانات پا س کرنے ہوتے ہیں تب انہیں کہیں جا کر کسی اہم عہدے ہر کام کرنے کا اہل سمجھا جاتا ہے پر اس ملک کی سیاست کے میدان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ موروثی سیاست ہے جہاں جماعت کے اہم عہدے پر فائز ہونے کے لئے قابلیت اور تجربے کی بجائے خون کے رشتے کو اہمیت دی جاتی ہے۔