وزیراعظم لز ٹرس کا ایجنڈا

برطانیہ میں  لزٹرس نے وزیراعظم اور کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ منتخب ہونے کے بعد عہدہ سنبھال لیا ہے اور اپنی کابینہ کا اعلان کردیا ہے۔لز ٹرس کابینہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار خزانہ، خارجہ اور داخلہ کی وزارتیں سیاہ فام خواتین کے حوالے کردی گئی ہیں۔سینتالیس سالہ ٹرس ٹوری پارٹی کی اہم رہنما اور آزاد معیشت کی نام لیوا ہے۔ وہ چھ سالوں میں برطانیہ کی چوتھی وزیراعظم اور مارگریٹ تھیچر اور ٹریسا مے کے بعد برطانیہ میں منتخب ہونے والی تیسری خاتون وزیراعظم ہیں۔ یہ مارگریٹ تھیچر سے متاثر ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں جو اس سے پہلے وزارت ہائے تعلیم، ماحولیات، انصاف، بین الاقوامی تجارت اور امورِ خارجہ پر براجمان رہی ہیں۔ٹرس نے ٹوری پارٹی سربراہ اور وزیراعظم کے انتخاب کے کئی مراحل میں کئی حریفوں کو شکست دی اور آخری مرحلے میں ان کا مقابلہ بھارتی نژاد اور سابق وزیر خزانہ رشی سونک سے تھا جنہوں نے ٹرس کے 57 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

لزٹرس ایک ایسے وقت میں عہدہ سنبھال رہی ہیں جب برطانیہ حالیہ برسوں میں شدید ترین معاشی بحران  کا شکار ہے۔روس کی طرف سے گیس برآمد میں رکاوٹ کی وجہ سے گھریلو توانائی بلوں میں 80 فیصد اضافہ اور  افراط زر کی شرح 20 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ان کے سامنے ایک اور چیلنج بورس جانسن کے ہنگامہ خیز تین سالہ دور کے بعد منقسم کنزرویٹو پارٹی کو متحد اور مضبوط کرنا بھی ہے۔لز ٹرس نے اپنی ایک کتاب میں برطانیہ کو عالمی معاشی طاقت بنانے کیلئے کئی ریاستی ضابطے واپس لینے کی کی سفارش کی جس کے بعد وہ جماعت میں آزاد تجارت پالیسی کی وکیل کے طور پر مشہور ہوگئیں۔ وہ پہلے بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کی مخالف تھیں مگر پھر وہ اس کے حق میں باتیں کرنے لگیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد وہ روس کے خلاف مغربی ممالک کی جانب سے سخت مشترکہ کاروائی کی وکیل بھی رہیں۔

لز ٹرس کہتی رہی ہیں کہ وہ خاندانوں پر ٹیکس کم کریں گی مگر بظاہر کمزور خاندانوں کو بچانے کے لیے انہیں بڑے پیمانے پر امدادی اقدامات کرنے ہوں گے۔واضح رہے ان کے پیش رو بورس جانسن پر اپنے ہی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کرنے، ان کی ساکھ مجروح کرنے اورغیر ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ ان کی بریگزٹ کی پالیسی غیر متوقع نتائج کا باعث بنی۔ ان کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر اخراجات کا تنازعہ بھی سامنے آیا۔ پارٹی میں ان پر اکیلے ہی بڑے فیصلے کرنے، کم مشاورت پسند ہونے، ضدی ہونے، پارٹی اتحاد کے لیے عدم دلچسپی اور صرف اپنے خاص ساتھیوں کو نوازنے کے الزامات لگائے گئے‘۔ گذشتہ پچاس برسوں میں تقریبا آدھے وزرائے اعظم کو عوام نے عام انتخابات میں نہیں بلکہ جماعتوں نے منتخب کیا ہے۔

ٹرس نے ان روایت پسند ووٹروں کو کم ٹیکس، سماجی بہبود اور محدود حکومتی کابینہ کے پیغام سے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جو رشی سونک کی جانب سے تلخ حقائق کے بیان سے سہم گئے۔واضح رہے برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم اگر مستعفی یا فوت ہوجائیں تو نئے وزیراعظم کے عہدے پر نامزدگی کیلئے ایک امیدوار کو اس کے آٹھ ارکان پارلیمان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اس کے بعد پہلے مرحلے میں ارکان پارلیمان ووٹ ڈالتے ہیں اور جو امیدوار اٹھارہ سے کم ووٹ حاصل کرلے وہ مقابلے سے نکل جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں بھی ارکان پارلیمان ووٹ ڈالتے ہیں اور چھتیس ووٹوں سے کم حاصل کرنے والے مقابلے سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اگر سب امیدوار چھتیس یا زیادہ ووٹ لے لیں تو پھر ان میں سب سے کم ووٹ لینے والے خارج ہوجاتے ہیں۔

 یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک مقابلے میں دو امیدوار باقی نہ رہ جائیں۔ اس کے بعد ٹوری پارٹی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار عام اراکین ڈاک کے ذریعے ان دو میں سے کسی ایک کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں اور جیتنے والا جماعت کا سربراہ اور وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے۔برطانیہ مثالی جمہوری معاشرے کا نمونہ سمجھا جاتا ہے مگر وہاں ملک کے انتظامی سربراہ اور پارٹی قائد کے انتخاب میں عوام کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد برطانیہ کے رائے دہندگان کا صرف 0.3 فیصد ہیں جو ظاہر ہے بہت کم تعداد ہے۔

 مگر یہ تعداد بھی بعد کی پیداوار ہے کیوں کہ کنزرویٹو پارٹی میں 1998 اور لیبر پارٹی میں 1981 تک صرف ارکانِ پارلیمان ہی نئے سربراہ کے انتخاب کا حق رکھتے تھے یعنی چند سو افراد ہی ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔ بلکہ 1965 تک کنزرویٹو جماعت میں سربراہ کا انتخاب ارکانِ پارلیمان کا کام بھی نہیں تھا بلکہ چند پارٹی قائدین باہمی صلاح مشورہ کر کے کسی ایک کا انتخاب کر لیتے تھے۔اب بھی کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار عام ارکان کی اکثریت عمر رسیدہ  یعنی60 فیصد پچاس سال سے زیادہ، سفید فام 97 فیصد اور مرد 63 فیصد ہیں۔ ان میں اقلیت، سیاہ فام اور خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسری پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔