چین، روس سربراہ ملاقات

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور چین کے صدر زی جن پنگ کے درمیان ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہورہی ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور تعلقات بڑھانے پر غور ہوگا۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب روس کو مغربی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات اور یوکرین میں حالیہ دنوں میں مسلسل ہزیمت کا سامنا ہے اور اسے چین کی مزید مدد درکار ہے جبکہ چین میں بھی کورونا وائرس کی سخت حکومتی پابندیوں کے باعث معاشی مندی کا سامنا ہے کروڑوں لوگ گھروں میں محصور اور کارخانے بند ہیں عوامی مایوسی بڑھ رہی ہے‘اس حال میں اسے روس کی طرف سے رعایتی نرخوں پر تیل اور گیس کی مسلسل فراہمی درکار ہے‘ پھر یہ کہ صدر زی جن پنگ اگلے ماہ تیسری مدت کیلئے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی کوشش کریں گے اور اس موقع پر کوئی بھی اس ملاقات سے چین کیلئے کوئی بھی اچھی خبر ان کی پوزیشن مضبوط کردے گی۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یوکرین کے صدر صدر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرینی افواج نے خارخیو کے خطے میں تقریباً آٹھ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ روس سے دوبارہ چھین لیا ہے۔ انہوں نے اپنا تمام علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کا عزم بھی دہرایا ہے‘ روس نے بھی کہا ہے اس کی افواج دو جگہوں پر پسپا ہوئی ہیں۔یہ ملاقات دونوں ملکوں کے لئے اہم ہے۔ روس کو چین کی مدد درکار ہے۔ مغربی پابندیوں کے بعد چین روسی اشیاء کا بڑا خریدار بن کے سامنے آیا جس کی وجہ سے روس مغربی پابندیوں کے برے اثرات سے اپنی معیشت کو بچانے کے قابل ہوا؛پیوٹن کی خواہش ہوگی چین کے ساتھ تجارت مزید بڑھائی جائے۔ روس نے تائیوان پر چین امریکہ کشیدگی میں چین کے موقف کی حمایت کا بھی اعلان کردیا ہے‘ اس نے امریکہ کی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کو اشتعال انگیز قرار دیا اور چین کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہارکیا۔روس چین باہمی تجارت سے چین کو بھی بڑا فائدہ ہے‘ روس پر حالیہ پابندیوں کے دوران چین نے اربوں ڈالروں کا قدرتی گیس اور تیل رعایتی نرخوں پر روس سے درآمد کیا ہے اور اسے بڑا فائدہ ہوا ہے۔چین کے خیال میں یوکرین میں روس کی موجودہ عسکری کارکردگی کے بعد روس کی زیادہ اور کھل کر حمایت اور مالی یا عسکری مدد کا مطلب مغربی پابندیوں کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا۔ دیکھا جائیگا کہ چین کے صدر روس سے درآمدات اور تعاون کتنا بڑھائیں گے یا محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے روس کو خود اپنے مسائل سے نمٹنے دیں گے چین کی اندرونی مشکلات کی وجہ سے شاید جن پنگ زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کرسکیں گے تاہم چین کبھی نہیں چاہے گا کہ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی اتحاد روس کو میدان جنگ میں شکست دے یا معاشی طور پر حد درجہ مضمحل کردے۔ چین نہ روس کو اپنے حال پر چھوڑ سکتا ہے کہ اس کا مطلب روس کی ممکنہ شکست ہوگی اور نہ اس کی کھل کر مالی و عسکری مدد کرکے مغربی ممالک سے دشمنی مول لے سکتا ہے‘ اس لئے وہ ممکنہ طور پر درمیانی راستہ اختیار کرے گا۔ یعنی وہ عمومی طور پر روس کا حامی تو نظر آئے مگر وہ نہ یوکرین پر روسی حملے کی کھلی حمایت کریگا اور نہ اس کی عسکری مدد کریگا جو سیاسی طور پر اس کیلئے نقصان دہ ہوگا کیوں کہ اس کے ردعمل میں مغربی ممالک اس پر پابندیاں لگاسکتے ہیں اس کی خواہش ہے کہ روس کسی نہ کسی طرح یوکرین اور نیٹو ممالک کے ساتھ اپنے مسائل بات چیت سے حل کرے۔ چین کی جانب سے روس کو جدید ہتھیار نہ بیچنے کی وجہ سے روس ایران اور شمالی کوریا سے جدید ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ویسے تو روس اور چین کی امریکہ کے ساتھ کشیدگی ایک تاریخی روایت رہی ہے مگر حالیہ ہفتوں میں ایک طرف تائیوان پر چین امریکہ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس اور امریکہ سمیت اس کے نیٹو اتحادیوں میں بھی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی‘ ان حالات میں چین اور روس کا قریب آنا فطری بات تھی مگر اس پیش رفت نے چین اور روس دونوں کے ساتھ امریکی تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھا دی ہے اور بظاہر دنیا پھر ماضی کی طرح سرد جنگ کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔پیوٹن، جو یوکرین سے اپنی جنگ کو مخالف مغربی ممالک کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ سمجھتے ہیں، چین کو دیرپا اور قابل اعتماد ساتھی سمجھتے ہیں اس لئے ان کیلئے چین کی واضح حمایت کی غیر موجودگی پریشان کن ہے مگر وہ ایک نئی پائپ لائن پر معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد وہ سائبیریا کی قدرتی گیس زیادہ مقدار میں چین کو برآمد کرسکیں گے‘ ایسا ہونا روس کی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے کیوں کہ یورپ نے روس سے قدرتی گیس کی درآمد کم کردی ہے اور مزید کم کرنے کا ارادہ ہے۔روس چین سے ہائی ٹیک برآمدات اور چینی کرنسی میں لین دین کا بھی خواہش مند ہے کیوں کہ مغربی ممالک سے مغربی پابندیوں کے بعد اس کی ہائی ٹیک درآمدات انتہائی کم ہوگئی ہیں اور ڈالر تک اس کی رسائی بھی انتہائی کم سطح پر آچکی ہے۔ روس کے صدر چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ چین کے صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کے ذریعے پیغام دیں گے کہ روس کو تنہا نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے دنوں ایک کانفرنس کے موقع پر انہوں نے چین روس رفاقت کے بارے میں کہا کہ ہمارے تعلقات بے نظیر اونچائی پر پہنچ چکے ہیں۔ چین اور روس کے درمیان سو سال سے تعلقات رہے ہیں۔