آذر بائیجان آرمینیا کشیدگی

روس یوکرین جنگ جاری ہے اور خطے کے دو ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں‘دونوں ممالک کے درمیان ستمبر سے نومبر 2020ء میں بھی جنگ ہوئی تھی جس میں دونوں اطراف کے ہزاروں لوگ مرگئے تھے؛ اب ایک دفعہ پھر منگل کو دونوں کے مابین سرحدی جھڑپیں ہوئیں جن میں آرمینیا حکومت کے مطابق 180افراد ہلاک ہوئے‘ تازہ جھڑپوں کے بعد روس، امریکہ اور فرانس نے دونوں ممالک کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی ہے‘ واضح رہے دونوں ممالک کے درمیان کئی مرتبہ امن مذاکرات ہو چکے ہیں‘1992 ء میں بنایا گیا ایک بین الاقوامی ثالثی گروپ‘جس میں فرانس، روس اور امریکہ شامل ہیں، بھی کوشاں ہے مگر ابھی تک دیرپا امن معاہدہ نہ ہوسکا‘ آرمینیا کو خوف ہے یہ جھڑپیں دونوں ملکوں کی جنگ پر منتج ہوسکتی ہیں اور اس نے عالمی طاقتوں سے اس تشویشناک صورتحال پر مزید توجہ دینے اور تنازعے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا‘روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہیں جس کا نام ”کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن“ہے تو کیا روس اس موقع پر اس معاہدے کے تحت اسکی مدد کرسکے گا جب وہ خود ایک جنگ میں مصروف ہے؟ روس کو آرمینیا کا محافظ سمجھا جاتا ہے مگر اسکے آذزبائیجان کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں‘ اس نے 2020 ء میں دونوں ممالک میں جنگ بندی کروائی تھی اور پچھلے ہفتے بھی فائر بندی کروا چکا ہے۔ روس اس معاہدے کا ضامن تھاامریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے ماضی کی امریکی روایات کے برعکس واضح الفاظ میں آذر بائیجان کو اس بار لڑائی شروع کرنے والا قرار دیا ہے‘ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے ساتھ اتوار کو آرمینیا کے دورے کے دوران انہوں نے آذر بائیجان کے اپنے پڑوسی ملک پر ”غیر قانونی اور خوفناک“حملوں کی مذمت کی‘انہوں نے آرمینیا کو امریکہ کی مضبوط اور مسلسل حمایت کا یقین دلایا تاہم ساتھ ہی مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا؛آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے پلوسی کے بیان کو بے بنیاد اور غیر منصفانہ اور آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین تعلقات معمول پر لانیکی کوششوں کیلئے کاری ضرب قرار دیا‘دونوں ممالک نگورنو کاراباخ کے خطے پر کنٹرول کے سلسلے میں دہائیوں سے باہمی اختلافات کا شکار ہیں‘1923 ء میں کالعدم سوویت یونین نے مسیحی اکثریتی علاقے نگورنو کاراباخ کو جمہوریہ آذربائیجان کا خود مختار خطہ بنایا مگر1991 ء میں جب آرمینیائی باشندوں نے آزادی کا اعلان کیا تو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اس میں تقریباًتیس ہزار لوگ مرے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اس جنگ میں آرمینیا نے نگورنو کاراباخ اور آذر بائیجان کے کئی علاقوں ہر قبضہ کیا‘1994 ء میں روس نے جنگ بندی کروائی‘2020 ء میں دونوں میں ایک دفعہ پھر ایک خونریز جنگ ہوئی مگر پھر روس کے تعاون سے جنگ بندی معاہدہ ہوا‘اس جنگ میں آذربائیجان فاتح رہا‘ منگل کو جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کو جھڑپوں کے آغاز کیلئے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں یوں تو نگورنو کاراباخ پر کنٹرول آرمینیا کا ہے مگر اقوام متحدہ اسے آذر بائیجان کا حصہ سمجھتا ہے‘ نگورنو کاراباخ آذر بائیجان کے جنوب مغرب میں واقع خطہ ہے جس پرآرمینیا کا قبضہ ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قراردادوں میں آرمینیا سے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔2020ء کی لڑائی صرف نگورنوکاراباخ میں ہوئی تھی۔ اس بار آرمینیا کے مطابق آذر بائیجان نے آرمینیا کی بین الاقوامی سرحدوں کے اندر بھی حملے کئے ہیں تاہم آذربائیجان نے آرمینیا میں کسی قسم کی دراندازی سے انکار کیا ہے۔ پلوسی کے بیان کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آرمینیا کے تحفظ کی بات پر روس اور امریکہ متفق ہیں اس کا بھی امکان ہے کہ امریکہ کے آرمینیا کے قریب آنے پر روس اس سے دور ہوجائے‘ اسکی غیر جانبداری کا نقصان پھر آرمینیا کو ہوگا کیوں کہ وہ جدید ہتھیاروں سے مسلح آذر بائیجان سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا‘روس کی توجہ یوکرین کے ساتھ جنگ اور پچھلے ہفتوں میں اس کے بڑھتے ہوئے عسکری نقصانات پر ہے اور اس کی جانب سے آرمینیا کی بھرپور مدد ممکن نہیں ہے‘دوسری طرف روس کی جانب سے یورپی ممالک کو گیس اور توانائی کی ترسیل پر پابندیوں کی وجہ سے ان کیلئے آذر بائیجان سے گیس و تیل خریدنا مجبوری ہے اور ان حالات میں وہ آرمینیا پر آذری فوج کے حملے کے بعد اس پر پابندیاں نہیں لگا سکتے یاد رہے یورپی ممالک آذربائیجان سے ہر سال 8 ارب مکعب میٹر گیس درآمد کرتے ہیں‘ یورپی یونین نے حالیہ دنوں میں اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ2023  ء میں 12 ارب کیوبک میٹر اور 2027 ء تک 20 ارب مکعب میٹر تک گیس درآمد کرے گا‘ اس لئے وہ اپنے توانائی مرکز آذربائیجان میں امن دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ آذر بائیجان بظاہر ان حالات کو نگورنو کاراباخ حتمی طور پر حاصل کرنے کا موقع سمجھتا ہے‘آذربائیجان ایک سیکولر جمہوریہ ہے‘ یہ اقوام متحدہ اور آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کا رکن ہے‘ اس کے دوتہائی حصے میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہیں‘ یہاں لکڑی کے 13 کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر ذخائر موجود ہیں اور یہ بحری تجارت کا بھی وسیع انتظام رکھتا ہے‘آذر بائیجان آرمینیا کے وزیر اعظم سے تقاضا کرتا رہا ہے کہ وہ اسکے ساتھ ایک ایسا امن معاہدہ کرلے جس میں نگورنوکاراباخ پر آذر بائیجان کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کیا جائے مگر حزب اختلاف نے کہا ہے ایسا کرنا غداری ہوگی۔