نیب سے 23سال کے تمام ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب 

 اسلام آباد:سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی قومی احتساب بیورو (نیب)کے قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران نیب سے 1999سے جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

 چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے چوتھے روز بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں؟خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے، جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، ایسے افراد جن کا تعلق عوامی اعتماد سے ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جعلی بینک اکانٹس کیسز میں بھی بے نامی کا معاملہ تھا، ایک غلام عباس زرداری نامی شخص فریال تالپور کا بے نامی دار تھا، معاشی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں کہ بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ کہیں ایسا نہ ہو پورا کیس مکمل ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے بنیادی حقوق کا تو سوال ہی نہیں تھا، ہمیں پہلے یہ بتائیں نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سوال آسان کر دیتا ہوں، فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہوگی تو نیب دیکھے گا، سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں، شہری کا کیا تعلق بنتا ہے۔اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر موجود ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو، شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔