ذہنی بیماریوں کے حوالے سے ہمارے رویے میں اگر تبدیلی آجائے تو ان بیماریوں کاعلاج آسان ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اکثر تو ذہنی بیماری کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور پھر دوسروں کو بتانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔اس کی کچھ مثالیں میں خود دیکھی ہیں،ہمارے علاقے میں ایک خاتون ماسی رہتی تھی بڑوں کا کہنا تھا کہ اُس کی عقلمندی کی باتیں محلے کی بلکہ سارے گاؤں کی رہنمائی کے لئے کافی ہوتی تھی۔ ہمیں بڑے بڑوں نے یہی کچھ بتایا ہے مگر ہم نے جس ماسی کو دیکھا ہ وہ اس سے بالکل الگ تھی۔ وہ دن بھر گاؤں میں گھومتی پھرتی۔ بال کھلے اور مٹی سے اٹے ہوئے۔ بڑی بوڑھیاں تو اُس کی اس حالت پر افسوس کرتی تھیں مگر بچے ماسی پر فقرے کستے۔ یہ قصہ ہر روز صبح سویرے سے ہی شروع ہو جاتا اور دن بھر چلتا رہتا۔ نہ ماسی تھکتی اور نہ بچوں کی شرارتوں میں کمی آتی۔ مگر ایک نفسیاتی مسئلہ ہو گاجو لا علاج رہ گیا۔ ۔ ایک تو شائد اُس کی جوانی کے وقت یا جب اُسے پہلی دفعہ اس بیماری کا حملہ ہوا ہو گا تو اُس وقت نفسیاتی مسائل کا علاج کرنے والے ڈاکٹر شاید کم ہی تھے۔ماسی کا علاج نہ ہو سکا او ر وہ بچوں کا کھلونا بن گئی۔ یوں تو بچے روز ہی اُ س کو تنگ کرتے تھے مگر ایک دن یہ ہوا کہ بچوں نے ایکا کر لیا کہ وہ ماسی کو بالکل تنگ نہیں کریں گے۔ماسی حسب محمول صبح سویرے گھر سے نکلی۔ بچے یا تو گلی میں تھے ہی نہیں یا اگر کوئی تھا بھی تو اُس نے ماسی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ماسی اپنے مخصوص فقرے اور گالیاں دیتی ہوئی گاؤں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلی گئی مگر کوئی بھی بچہ اُسے تنگ کرنے کے لئے نہیں نکلا۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گئی اور کچھ دیر تک سوچتی رہی۔ اس طرح کئی اور بھی مریض تھے جو ہمارے علاقے میں موجود تھے تاہم ان کو ڈاکٹروں کی جانب سے کوئی مدد نہ ملی۔ یہ نفسیاتی بیماریاں ایک فقرے یا ایک لفظ سے شروع ہوتی ہیں۔کسی نے ایک بھلے چنگے شخص پر ایک فقرہ مذاق میں چست کر دیا۔ اُس شخص نے اس پر بری طرح ری ایکٹ کیا۔ بس یہ اُس کی چڑبن گئی اور پھر وہ بے چارہ بچوں کا کھلونا بن گیا۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایک مزدور پر بچوں نے کوئی فقرہ چست کیا اور اُس نے اُس کا برا مانا۔ اور بچوں کو ایک کھلونا ہاتھ لگ گیا۔ جو بھی شخص آپ کو ایک ہی فقرہ یا لفظ بار بار دہراتا دکھائی دے۔چاہے وہ کتنا ہی عقلمند کیوں نہ ہو انتظار کریں کہ کب وہ پتھر ہاتھ میں لیتا ہے اور بازاروں میں لوگوں پر پھینکتا نظر آتا ہے۔ اس کے لئے کوئی استثنیٰ نہیں ہے یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ بس یہ دیکھیں کہ وہ شخص ایک ہی فقرہ تو نہیں دہرا رہا۔ مطلب یہ ہے کہ نفسیاتی بیماری کا شکار افراد کے ساتھ بولتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہئے جن کو سن کو ان کی بیماری میں اضافہ ہو۔ اور جہاں تک ذہنی بیماری کا شکار افراد کا مذاق اڑانے اور ان پر فقرے کسنے کی بات ہے تو یہ ایک بہت غلط رویہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ اس وقت دنیابھر میں نفسیاتی امراض کا شکار افراد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اوراس کی وجہ تیز ترین زندگی اور ذہن و دماغ پر پڑنے والا دباؤ ہے جس کا مقابلہ کرتے ہوئے بہت سارے ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔