سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے خیبر پختونخوا حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے جب کہ صوبائی حکومت اپنے فرائض سے دستبردار ہوچکی، انہیں مال بنانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے۔
انکا کہناتھا ہمارے مخالفین پستی میں گرچکے لیکن ہم اس سطح پر آکر جواب نہیں دے سکتے، نواز شریف نے کبھی نازیبا زبان استعمال نہیں کارکنان بھی سوشل میڈیا پر ایسی زبان استعمال نہ کریں۔
ان خیالات کا اظہار وزیر دفاع نے سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف، ان کے اہل خانہ، ان کے ورکرز کے خلاف ظلم کیا گیا، آج ایک شخص کہتا ہے کہ نیب میرے قابو میں نہیں تھا، وہ قمر باجوہ کے کنٹرول میں تھا۔
میں پوچھتا ہوں خواجہ آصف کو کس نے گرفتار کیا تھا، نیب نے گرفتار کیا تھا، کس کے کہنے پر گرفتار کیا تھا، کس کی درخواست پر گرفتار کیا تھا، جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے تو گرفتار نہیں کیا تھا اور کس کی کابینہ نے کہا تھا کہ اس پر آرٹیکل 6 کا، غداری کا مقدمہ بناؤ، نواز شریف کو کس نے قید کیا، ان زوجہ انتقال کرگئیں، ان کے بارے میں پی ٹی آئی والے جو زبان استعمال کرتے تھے، اسے دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان آج جنرل باجوہ کو گالیاں دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا،انہوں نے کہا کہ عمران خان اتنا محسن کش اور ظالم شخص ہے کہ کوئی پتا نہیں وہ یہ سارا معاملہ مرشد پر ہی نہ ڈال دے اور کہے کہ مجھے کچھ نہیں پتا تھا، یہ میری تیسری اہلیہ ہیں، انہوں نے یہ وارداتیں کی ہیں، میں تو لا علم تھا، عمران خان اب جلسوں میں بھی نہیں آتے، آنلائن ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ مخالفین ہماری آڈیو ویڈیو چلا کر ہمارے معاشرے کی اخلاقیات تباہ کر رہے ہیں، میں پوچھتا ہوں کہ سیاست کو اس لیول پر کون لے کر گیا ہے، کس نے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو جلسوں میں ناچنے کی ترغیب دی۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر پرویز الہٰی نے کہا تمہارا نواز شریف سے اچھا تعلق ہے، آج ہی فون کرنا اور کہنا ہم سے ماضی میں بہت لغزشیں ہوئیں، یہ صبح پی ٹی آئی میں چلے گئے اور کہتے ہیں کہ مجھے جنرل باجوہ نے کہا تھا، یہ اب کہیں اور چلے جائیں گے، شاید ریورس گیئر لگا لیں،نواز شریف ضرور آئے گا اور ملک کی تقدیر بدلے گی، ہمارے پاس سارے وسائل ہیں بس طور طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔