نئے سال کا عزم

یہ جنوری 2000 کی بات ہے۔ رابرٹ موگابے زمبابوے کے صدر ہیں۔ ہرارے زمبابوے میں زمبابوے بینکنگ کارپوریشن (زم بنک) کے زیرانتظام قومی لاٹری کی قرعہ اندازی ہونے والی ہے۔ اس قسم کی سرگرمیوں کیلئے مشہور فیلٹ چواوا کو ایک خوش نصیب کے نام کا قرعہ نکالنا ہے۔ اس لاٹری میں وہ تمام لوگ شامل کیے گئے ہیں جنہوں نے دسمبر 2009 کے درمیان اپنے بنک اکاؤنٹس میں 500 یا زیادہ زمبابوین ڈالرز رکھے ہوئے تھے۔ جب چواوانے ٹکٹ نکالا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ایک لاکھ زمبابوے ڈالرز کے انعامی ٹکٹ پر عزت مآب رابرٹ جی مگابے کا نام لکھا ہوا تھا۔یہ انعامی رقم ملک کی سالانہ فی کس ملکی آمدنی سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ زم بنک کا دعوی تھا کہ رابرٹ مگابے کا نام ہزاروں اہل گاہکوں میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے نکالا گیا ہے۔ کیا خوش قسمت بندہ، مگابے کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ عین ان دنوں اس نے اپنی اور اپنی کابینہ کی تنخواہوں میں تقریبا 200فیصداضافہ کیا ہوا تھا۔ریاستیں خوشحال اور کامیاب ہوتی ہیں جب ان کے سیاسی اور معاشی ادارے عوامی/فلاحی ہوں۔اس کے برعکس جن قوموں (مثلا زمبابوے، سرالیون)کے ادارے اور نظام استحصالی اور ملکی وسائل نچوڑنے والے ہوں اور وہاں سیاسی مرکزیت نہ ہو تو وہ ناکام اور غریب رہ جاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ عوامی/فلاحی سیاسی اداروں اور نظام کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور استحصالی اداروں اور نظام کی کیسی؟عوامی و فلاحی ادارے اور نظام سیاسی عمل میں وسیع شرکت، اختیارات کی تقسیم، امن و استحکام، باقاعدہ شفاف انتخابات اور سب کو یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنا نے جیسے عوامل سے عبارت ہوتے ہیں۔یہ نجی ملکیت، پسند اور اہلیت کے مطابق پیشے کے انتخاب، جدید پیشہ ورانہ تعلیم اور ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی، بچت، تجدید اور سرمایہ کاری کی ترغیب، معاشی عمل میں نئی کمپنیوں اور افراد کی شمولیت اور عوامی خدمات کی یکساں فراہمی کی بھی ضمانت دیتے ہیں۔یہ عوام کی تعلیم اور استعداد کار بڑھانے پر سرمایہ کاری اور صحت مند مقابلے کی حوصلہ افزائی بھی یقینی بناتے ہیں۔ان میں حکمران اپنے اختیارات کو ذاتی یا گروہی مفاد کیلئے استعمال نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایڈیسن پیرو یا میکسیکو میں نہیں ہمیں امریکہ میں نظر آتا ہے اور یہی بل گیٹس، سٹیو جوبز، جیف بزوس وغیرہ پیدا اور سینکڑوں ماہرین اور سائنسدانوں کو دنیا سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔اصل دیرپا ترقی اور خوشحالی معاشی اداروں سے ہوتی ہے۔یہ عوام کی تعلیم اور استعداد کار بڑھانے پر سرمایہ کاری اور صحت مند مقابلے کی حوصلہ افزائی بھی یقینی بناتے ہیں۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو عوام پر بھی یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سیاسی نظام میں سپورٹ کریں جن کے پاس عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے پروگرام ہو اور یہ پروگرام قابل عمل بھی ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک کے آگے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر عوام رائے دہی کے وقت ملک و قوم کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ہم جن لوگوں کو سپورٹ کررہے ہیں وہ ملک و قوم کیلئے کس قسم کے پروگرام رکھتے ہیں۔ایک اور عمل جس سے ایک قوم ترقی کے منازل طے کرتی ہے وہ ہر فرد کا احساس ذمہ داری سے لیس ہونا ہے۔ ہر فرد اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور معاشرے میں اسے جو کردار سونپا گیا ہے اسے ادا کرنے پر توجہ مرکوز کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک و قوم ترقی کی طرف جائے کیونکہ جس طرح ایک دیوار کی ایک ایک اینٹ اہم ہوتی ہے اسی طرح ہر فرد قوم کے مقدر کا ستارہ ہے اور اس پر قوم کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے اور ا سکا احساس کیا جائے تو یہ بہت اہم قدم ہے اور اس سے آگے جو راستے نکلتے ہیں وہ ترقی اور خوشحالی کی طرف جاتے ہیں۔