بدگمانی کا خاتمہ

عوام کے ساتھ جو حکومتی محکمے بلاواسطہ رابطہ رکھتے ہیں ان میں پولیس بدترین محکمہ سمجھا جاتا ہے مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے پولیس بارے خراب عوامی تاثر جھوٹ، مبالغہ، بدگمانی اور نفرت کی پیداوار ہے ورنہ یہ اتنا برا محکمہ قطعا ًنہیں ہے جتنا یہ بدنام کیا گیا ہے۔کل اپنے بڑے بیٹے محمد سیف اللہ خان سے موبائل چوری ہوا اور ممکنہ غلط استعمال کے نتائج سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے جانا پڑا۔جس علاقے میں موبائل چوری ہوء اس کے بارے میں کسی نے بتایا کہ یہ پشاور چارسدہ روڈ پر واقع تھانہ فقیر آباد کے حدود میں ہے اس لیے ہم وہاں پہنچ گئے۔ہم نے دانستہ اپنا تعارف کیے بغیر تھانہ کے بیرونی دروازے پر موجود سپاہی سے کہا کہ افسرِ مہتممِ تھانہ(ایس ایچ او)سے ملنا ہے۔ سپاہی نے نرمی اور ادب کے ساتھ شناختی کارڈ مانگا تاکہ مہمان رجسٹر میں درج کرسکے۔ ہم نے سروس کارڈ دیا۔ ملاحظہ کرنے کے بعد اس نے درج کیا اور مودبانہ انداز میں مطلوبہ دفتر کی طرف رہنمائی کی۔پتا چلا کہ افسر مہتمم صاحب تھانہ کے اندر واقع اے ایس پی صاحب کے دفتر میں ان کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں۔ہم نے اے ایس پی صاحب کے دفتر کے دروازے پر موجود سپاہی کو اپنا تعارف کرایا کہ صاحب سے ملنا ہے۔ اس نے کہا اچھا سر اور اشارہ کرکے بتا دیا کہ دیکھیں سر میٹنگ جاری ہے، تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔پھر اس نے ہمیں عزت کے ساتھ قریبی دفتر میں بٹھا دیا اور کہا جیسے ہی میٹنگ ختم ہو میں آپ کی ملاقات کرادیتا ہوں۔انتظار والے کمرے میں جو بندہ موجود تھا اسے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ بولا کہ جب تک سر فارغ نہیں ہوجاتے تب تک آپ جاکے تھانہ محرر سے مل لیں وہ رپورٹ درج کروا لیں گے۔ بات مناسب تھی چنانچہ ہم اٹھ کر محرر صاحب کے دفتر آگئے۔وہاں بھی انہوں نے احترام کے ساتھ بات سنی اور آگاہ کیا کہ جہاں وقوعہ ہوا ہے یہ تھانہ ہشتنگری کے حدود میں آتا ہے آپ وہاں چلے جائیں۔ انہوں نے چائے پلانی چاہی مگر ہم جلدی میں تھے۔ واپس بیرونی دروازے پر آئے تو اس سپاہی نے بڑے پیار اور ادب کے ساتھ رخصت کیا۔رات کے ساڑھے دس بجے ہم تھانہ ہشت نگری پہنچے تو افسر مہتمم تھانہ کے دفتر کا پوچھا۔ پتا چلا وہ محرر صاحب کے دفتر میں ہیں۔ باہر سے نظر آیا کہ چند بندے اس وقت کھانا کھا رہے (پولیس کی مصروفیت کا اس سے اندازہ لگالیں) جب کہ دو بندے کسی مسئلے پر گفتگو کررہے ہیں۔ہم باہر کھڑے ہوگئے۔ دو تین منٹ بعد برتن باہر آئے ہم دفتر کے اندر چلے ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ گفتگو کرنے والے دو بندوں میں ایک افسر مہتمم ہیں۔ نہایت وجیہ شخصیت اور اندازو اطوار کے مالک ایس ایچ او مڑے تو ہمیں دیکھا، سلام کیا اور ادب کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ان سے اپنا تعارف کیا اور مدعا بیان کیا۔ انہوں نے توجہ سے بات سنی، پیار بھرے لہجے میں چند ایک سوالات پوچھے اور پھر مدد محرر صاحب کو کہا کہ ان کا کام جلدی کردیں اور چائے بھی پلادیں۔ مدد محررنے ہماری رپورٹ لکھ دی اور وعدہ کیا کہ ان شااللہ موبائل برآمد کروانے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم درجنوں موبائل برآمد کرواکر مالکان کو واپس کر چکے ہیں۔انہوں نے پشاور کا زبردست قہوہ بھی پلایا اور عزت و تپاک کے ساتھ رخصت کر دیا۔واضح رہے بارہ سال قبل مردان پولیس نے میرا ایک گم شدہ موبائل فون چار دن بعد برآمد کرکے مجھے واپس کردیا تھا۔ دیکھتے ہیں اس بار پشاور پولیس کیا کرتی ہے۔پولیس بدنام کیوں ہے۔ ایک تو پولیس والوں کا کام زیادہ اور سخت ہوتا ہے۔ کام کے بوجھ اور آرام نہ ہونے سے وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر لوگ بھی  خواہ مخواہ  بدتمیزی اور زیادتی کرتے ہیں اور ان کی نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ورنہ پولیس میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ ادارہ بد اتنا نہیں جتنا بدنام کیا گیا ہے۔