پنشن‘ جامعات کا گھمبیر مسئلہ

سنی سنائی بات سہی لیکن سننے میں آیا ہے کہ قدیم درسگاہ جامعہ پشاور سمیت بعض یونیورسٹیوں نے پنشن انڈومنٹ فنڈ قائم کرلیا ہے جبکہ مزید اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں مگر جواب طلب سوال یہ ہے کہ انڈومنٹ فنڈ کیسے اور کن مالی وسائل سے قائم کیا گیا کیونکہ جامعات کی حالت تو یہ ہے کہ بیچارے ریٹائرڈ ملازمین تو بیشتر اوقات پنشن اور اس وقت گزشتہ نصف سال یا اس سے بھی زائد عرصہ سے پنشن میں ہونیوالے اضافے سے بھی محروم اور ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ایسے میں تو پشاور یونیورسٹی نے اسلامیہ کالج کے دور کے ریٹائرڈ ملازمین کو سرخ جھنڈی بھی دکھائی تھی جس پر وہ بے چارے مجبوراً عدالت سے رجوع کرگئے اور پھر خبر آئی کہ عدالت کا فیصلہ پنشنرز کے حق میں جاری ہوا اب معلوم نہیں کہ مسئلے یعنی ریٹائرڈ ملازمین کی کسمپرسی اور معاشی ابتری کا کیا بنا؟ پنشن کے مسئلے میں یہ جاننا بھی غیر ضروری نہیں ہوگاکہ واقعی پنشن انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا یا یونیورسٹی کے جس اکاؤنٹ میں پنشن کیلئے پیسے رکھے جاتے تھے اسے انڈومنٹ فنڈ کا نام دیا گیا؟ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ہدایت تھی کہ پنشن کے فنڈ کو مالیات کی دوسری ادائیگیوں سے الگ کر کے رکھا جائے پنشن کا مسئلہ اگرچہ صوبے کی دوسری قدرے پرانی جامعات کو بھی درپیش ہے لیکن گھمبیر حالت جامعہ پشاور کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ پنشنرز پشاور یونیورسٹی کے ہیں معلوم ہوا ہے کہ اسلامیہ کالج کو سال2008 میں غیر ضروری طور پر یونیورسٹی کا درجہ ملنے سے قبل جو ملازمین جامعہ پشاور کے اسلامیہ کالج سے ریٹائرڈ ہوئے تھے ان کی تعداد257 ہے جبکہ یونیورسٹی پنشن کی مد میں ہر مہینے ایک کروڑ روپے سے زائد اداکر رہی ہے جو کہ موجودہ گھمبیر مالی حالت بلکہ بحران میں یقینا ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے اس مسئلے کا کیا بنے گا؟ ہر چند کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد ناگزیر ہوگا لیکن جب پیسہ نہ ہو بلکہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز کیلئے بھی جب پرانی جامعات ادائیگی کی پوزیشن میں نہ ہوں اور حکومت کی طرف سے بھی تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی ہو رہی ہو تو پھر ریٹائرڈ ملازمین کا کیا بنے گا؟ کیونکہ ان میں ایسے پنشنرز بھی کم نہیں ہونگے جن کے معاش کا واحد ذریعہ محض پنشن ہو اور پھرایسے بھی  جو بے اولاد ہوں یا اولاد کی خدمت سے محروم اور دائمی بیمار ہوں؟ دراصل پنشن کا مسئلہ گھمبیر سہی مگر ناممکنات میں سے نہیں بس ہونا یہ چاہئے کہ اس کے حل کا ایک مربوط اور مشترک لائحہ عمل ترتیب دیا جائے ان سطور میں متعدد بار تجویز دی گئی کہ وائس چانسلر اور گریڈ20اور21 کے اساتذہ اور افسران کی تنخواہوں سے ماہانہ صرف پانچ سو روپے گریڈ17سے19 تک سے تین سو روپے کلاس تھری یعنی گریڈ 16 تک سے دو سو جبکہ کلاس فور سے محض ایک سو روپے کٹوتی کیساتھ ساتھ وفاقی اورصوبائی حکومت کا ناگزیر مالی تعاون یعنی گرانٹ جبکہ جامعہ کے ملک اور بیرون ملک سابق گریجویٹس یا ایلومنائی‘ قومی اور بین الاقوامی فلاحی انجمنوں  اور مخیر رفاعی شخصیات کا تعاون حاصل کرکے پنشن کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے اس کارخیر میں وقت ضائع کئے بغیرپہلے کرنا ہوگی بصورت دیگر بیمار اور بے آسرا پنشنرز کی بددعائیں بے اثر نہیں رہیں گی مسئلہ حل ہو تو اس کے جامعہ کی ٹریژری پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہونگے جامعہ قدرے مالی استحکام سے ہمکنار ہو کر تدریس و تحقیق‘ انتظام و انصرام‘ ملازمین کی فلاح و بہبود اور مستحق طلباء و طالبات کی مدد کیلئے مالی وسائل مختص کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی‘ ویسے بھی  یونیورسٹی کے موجودہ سربراہ نے اس خواہش بلکہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ یونیورسٹی قرضوں کے دلدل سے نکل کر اب اس قابل ہوگئی ہے کہ اپنے سالانہ بجٹ کا ایک معقول حصہ نادار طلباء کی فلاح و بہبود اور ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے مختص کردے یہ الگ بات ہے کہ ملازمین میں سے بعض سیانے کہتے ہیں کہ وہ دیکھیں گے کہ فلاح و بہبود پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ فی الوقت تو حالت یہ ہے کہ نادار طلباء کی مدد اساتذہ کی تنخواہوں سے کی جاتی ہے البتہ یہ کٹوتی ان کٹوتیوں میں شامل نہیں جس کے خلاف گزشتہ سال ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ نے پورے تین ہفتے ایکا کر کے یونیورسٹی کے پورے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ تعلیم کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونا جبکہ انتظامیہ اور فیکلٹی کے مابین رسہ کشی مزید ابتری کا سبب بن سکتی ہے۔