یورپ میں اسلاموفوبیا

یہ امر انتہائی افسوس ناک اور ناقابل قبول ہے کہ سویڈن میں ایک انتہاپسند گروہ نے دوبارہ قرآن مجید کو نذر آتش کردیا ہے۔یہ واقعہ اس حقیقت کا ایک اور ثبوت ہے کہ یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہے 2020 اور 2022 میں بھی سویڈن میں اس انتہاپسند گروہ نے قرآن کریم جلائے تھے یا جلانے کی کوشش کی تھی۔پاکستان اور ترکی سمیت کئی مسلم ممالک نے اس کی مذمت کی ہے۔ ترکی نے اس واقعے کو قابل نفرت فعل قرار دیا ہے۔ ترکی نے کہا ہے کہ سویڈن حکومت کی جانب سے احتجاج کی اجازت دینے کا فیصلہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اس نے سویڈن کے وزیر دفاع کا دورہ بھی منسوخ کردیا ہے۔واضح رہے یہ واقعہ ترکی کے خلاف سویڈن میں مظاہرے کے دوران پیش آیا۔ در اصل سویڈن نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے جب کہ ترکی، جو نیٹو کا رکن ہے اور نیٹو کا رکن بننے کیلئے اس کی حمایت بھی ضروری ہے، سویڈن کے ساتھ اختلافات کے باعث تاحال اس کے راستے میں رکاوٹ ہے۔یورپ کے اکثر ممالک میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ وہاں عمومی صورت حال یہ ہے کہ وہ قرآن کی بے حرمتی اور توہین آمیز خاکوں کو آزادی  رائے سمجھتے ہیں۔آزادی رائے کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ آپ کے من میں آئے وہ آپ بول یا کر سکتے ہیں۔ آزادی رائے کے نام پر کسی کو دوسرے انسانوں کی مقدس مذہبی شخصیات، عقائد اور کتابوں کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔قول و فعل پر ضروری پابندیاں ہر زمانے میں رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔ جیسے اسی یورپ میں کسی کو بھی ہولوکاسٹ کو مشکوک یا جھوٹا قرار دینے یا اس پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہے۔اگر آپ کے قول یا عمل سے کسی دوسرے کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، ان کی جان، مال اور آبرو کو خطرہ ہو، ملکی نظام، ادارے اور معاشرتی امن خطرے میں پڑ سکتے ہوں تو آپ کے قول و فعل کو محدود کیا جا سکتا ہے۔آزادی رائے اور نفرت انگیز گفتگو میں فرق ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے جاری پلان آف ایکشن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کو بھی ہیٹ سپیچ میں شامل کیا گیا ہے۔ جس قول یا فعل سے دوسرے انسانوں کے جذبات و احساسات مجروح ہوں کوئی انصاف پسند اس کی وکالت نہیں کرسکتا۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک پوری دنیا پر یہ بات واضح کردیں کہ آپ اگر خود کسی مقدس ہستی، کتاب اور عقیدے کو نہیں مانتے تو نہ مانیں اور مسلمانوں کے شعائر کا احترام اگر آپ نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں مگر ان کی بیحرمتی بالکل ناقابل قبول ہے اور آپ اگر اپنے ملک کے اندر اس کی اجازت دیں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ آپ اس قبیح جرم میں انتہاپسندوں کے ساتھ شریک ہیں۔ دوسری طرف ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے قریب احتجاج اور اس میں قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے کے بعد سوئیڈن کو اب یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ترکیہ اس کی نیٹو رکنیت کے لیے حمایت کرے گا۔تین دن قبل ہفتے کو اسٹاک ہوم میں سوئیڈن کی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں شمولیت کے معاملے پر ترکیہ کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ سوئیڈن کے لیے مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت کے لیے ترکیہ کی حمایت ضروری ہے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس کے بعد خطاب میں کہا کہ وہ جو ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے ایسے کسی بھی توہین آمیز عمل کی اجازت دینے کے بعد، اب ان کو نیٹو کی رکنیت کے حصول کے لئے ترکیہ کی حمایت کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دہشت گرد تنظیموں کے ارکان اور اسلام کے دشمنوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور ان کا تحفظ کر رہے ہیں تو پھر آپ کے لئے ہماری تجویز ہے کہ اپنے ملک کے تحفظ کیلئے انکی ہی حمایت حاصل کریں سوئیڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے حصول کیلئے درخواست دی ہے تاہم یہ دونوں ممالک اس وقت تک نیٹو کے رکن نہیں بن سکتے جب تک اس اتحاد کے تمام 30 رکن ممالک اس کے حق میں نہ ہوں۔