معاشی بحران کے خاتمے میں وقت لگے گا ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، اسحاق ڈار

 اسلام آباد:وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمد اسحاق ڈارنے کہاہے کہ تعلیم، عدم تشدد اورمکالمہ سے ہم ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں، اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک تحفہ ہے، اگرآمریت کوہمیشہ دفن کرنا ہے توصرف جمہوریت نہیں، مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگا۔

مالیاتی نظم وضبط کے بغیر جمہوریت توہوگی مگر ہمیں بحرانوں کا سامنا ہوگا، ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ معاشی بحران کے خاتمے میں وقت لگے گا ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔

اتوارکوباچہ خان اور خان عبدالولی خان بارے سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ باچہ خان اوران کا خاندان ایک نظریاتی جدوجہد کے تسلسل کانام ہے، اس خاندان نے ہمیشہ نظریاتی جدوجہد کو جاری وساری رکھا ہے، خان عبدالولی خان، اسفندیارولی خان اور ایمل ولی خان اسی جدوجہد کی کڑیاں ہے۔

 وزیرخزانہ نے کہاکہ باچہ خان کا عدم تشدد کا نظریہ واضح اورقابل تعریف ہے، اختلافات اوراختلاف رائے ہوتا ہے مگر اس کے باوجود باچہ خان نے جو خدمات انجام دی ہیں اورجو جذبہ وجدوجہد آزادی، حریت اوراصلاحی تحریک انہوں نے چلائی ہے اس سے کوئی کوئی انکارنہیں کرسکتا،میں پوری قوم کی طرف سے عظیم بزرگ اور رلیڈرکی خدمات کوسلام پیش کرتا ہوں۔ اگرگروہی اورسیاسی مفادات کی بجائے عدم تشدد کے فلسفہ پرعمل ہوتا توہمارے خطہ کے حالات بہت بہترہوتے۔

 وزیرخزانہ نے کہاکہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے، اس ناسور نے ہمارے قومی وجود کولہولیان کیا ہے۔ ہماری سیکورٹی فورسز نے اس ناسورکے خاتمہ کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں، ہم سانحہ اے پی ایس کو نہیں بھول سکتے، اس واقعہ کے بعد ایک سیاسی عمل کے زریعہ نیشنل ایکشن پلان بنایاگیا، جس کمٹمنٹ کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہئیے تھا وہ نہ ہوسکا، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان جو مشکل سے 2013 میں فیٹف کے ورچول بلیک سے گرے میں اورپھر وائیٹ آیا وہ 2018 میں دوبارہ گرے میں چلاگیا۔

 انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کی لہر میں سیاسی کارکن اورلیڈر نشانہ بنے ہیں، بشیربلور، محترمہ بے نظیربھٹو، میاں افتخارحسین کے جواں سال بیٹے اورہاروں بلورسمیت ہم نے کئی سانحات دیکھے، آج بھی ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی لہر آرہی ہے، اس کا جنگی بنیادوں پرسدباب ہونا چاہئیے۔

 وزیرخزانہ نے کہاکہ ضرب عضب کیلئے ہم نے کسی سے بھیک نہیں مانگی تھی، ہم نے اپنے وسائل سے یہ جنگ لڑی۔ جس وقت ضرب عضب کاآغاز ہورہاتھا اس وقت بجٹ منظورہوچکاتھا بطوروزیرخزانہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا 100 ارب مختص کئے جاسکتے ہیں جس پرمیں نے کہاکہ اس ملک میں امن کیلئے کئی سوارب مختص کرسکتے ہیں، 4 برس اس آپریشن کے اخراجات حکومت نے برداشت کئے اوراس کے نتیجہ میں دہشت گردی میں کمی آئی۔

 وزیرخزانہ نے کہاکہ ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 2018 میں ہمارا مجموعہ قرضہ اورادائیگیاں 30 ہزار ارب روپے تھا،اس میں 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا۔ ماضی کی حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ وہ قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کم کریں گی مگر اس کی بجائے سابق حکومت 25 ہزار ارب کو 44 ہزار 500 ارب اور مجموعی قرضہ وادائیگیوں کو 55 ہزار ارب روپے پرلے گئی۔

 گزشتہ چاربرس ملکی تاریخ میں بدترین مالیاتی ڈسپلن کا دوررہاہے، اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی جادوکی چھڑی نہیں کہ ہلائیں گے تو سارے کام سیدھے ہوجائیں گے تاہم حکومت نے اقدامات کاسلسلہ شروع کیا ہے۔ 

وزیرخزانہ نے کہاکہ اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو تو مالیاتی نظم وضبط لازمی قراردینا ہوگا، اگراقتصادی بحرانوں سے نمٹنا ہے توبڑے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے اوربیرونی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ہوگی، اندرونی معاملات منیج ہوسکتے ہیں مگر بیرونی عوامل سے قوم سے آزادکرنا ہوگا، گزشتہ پانچ سال میں مس منیجمنٹ سے مکمل تباہی ہوئی ہے۔