آباد رہنا ہے یہ گھرآباد رہنا ہے 

 دنیا میں رہنا ہے تو امید کے سہارے زندگی بسرکرنا ہے۔وگرنہ تو ایک ہاتھ سے آس کا دامن چھوٹا دوسرے ہاتھ سے زندگی سے ناتا ٹوٹا۔دنیا اندھیرے اجالے یاس و آس امید ناامید ڈگریا ہے اور نگریاہے۔ لہٰذا اس ڈگریا پر دھیرے دھیرے قدم رکھنا ہے۔اتنا کہ ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا“۔آس کا بندھن ٹوٹ جائے تو پھر زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ ”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔گزر ہی جائے یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔پھر وہ شعر کہ زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن۔فصلِ گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے“۔زندہ ہوں گے بہار کے دن دیکھے گے۔کیونکہ بہار تو وہ آنکھیں دیکھ پاتی ہیں جو زندہ و سلامت ہوں۔جو آنکھیں مردہ ہو جائیں وہ بھلا زندگی کے سرمست نظاروں کی گواہ کیونکر بنیں گی۔بہار تو اسی ٹہنے پر آئے گی جو درخت سے ملحق ہو۔وگرنہ تو درخت سے دور گری ہوئی ٹہنی پر بہار کے دن کیونکر آئیں گے۔یہی تو پیارے ہے زندگی کبھی غم اور کبھی خوشی“۔وہ شعر ہے کہ ہزار سانحے پردیس میں گزرتے ہیں۔ جو ہوسکے تو ذرا ہم سے رابطہ رکھنا۔ اس دنیا میں امید ہی سب کچھ ہے۔پھر اُمید آتی بھی کہاں سے ہے۔اُمید رابطوں سے آتی ہے۔انسانوں کے درمیان اگر رابطہ کٹ جائے تو پھر آدمی تنہا رہ جاتا ہے۔کوئی کسی کا مددگار تب ہوگا جب دوسروں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔ انسان انسان کادارو ہے۔لہٰذا رابطے نہ توڑیں۔ کیونکہ پہاڑ دوسرے پہاڑ کی طرف نہیں جاتا۔ کیونکہ ایک کی دوسرے کو ضرورت جو نہیں۔ اصل میں انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت ہے۔وہ دوا دارو ہر چیز کے لئے دوسرے کا محتاج ہے۔ جنگل میں جانور اکیلے ہوتے ہیں مگر انسان اکیلے رہ کر کبھی بھی خوشگوار تو کیا سرے سے زندگی ہی گزارنے سے قاصر ہے۔انسان کو اسی لئے معاشرتی حیوان کہا گیا ہے کہ یہ سوسائٹی کے بغیر دو قدم زندگی کے سفر میں آگے بڑھ نہیں پائے گا۔امید تو واحد سہارا ہے کہ آدمی کو سردیوں کی راتوں میں گرم ہوا دیتا ہے اور گرمیوں کی تاریک شب گزاری میں جینے کا حوصلہ او رٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔”دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے“۔شام جتنی لمبی ہو جائے شام ہی ہوتی ہے۔کیونکہ اس نے رات میں اور رات نے صبح میں تبدیل ہونا ہوتا ہے۔ناکام ہو مگر ناامید نہ ہو۔”شکست سے تو مرا شوق اور چمکے گا۔ کہ داؤ ہارا ہے پر حوصلہ تو ہارا نہیں“۔ داؤ ہار جانا برا نہیں مگر حوصلہ ہار جانا بہت تکلیف دہ ہے۔کیونکہ جنگ میں پہلی شکست اس وقت ہو ہی جاتی ہے جب بندہ حوصلہ ہار جائے۔حوصلہ ہمت جرأت گئی تو سمجھو سب گیا۔ حوصلہ کو شکست نہ ہو تو آئندہ کی جنگ میں ہی سہی بندہ فتح یاب ہو جاتا ہے۔یہ دنیا مثبت اور غیر مثبت چارج کی دنیا ہے جہاں ناامیدی ہے وہا ں آس ہے۔سو کبھی غم کبھی خوشی کی کیفیت ہے۔”گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے۔یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں“۔ ناامید اور امید کے درمیان کا فاصلہ لگتاتو بہت زیادہ ہے جیسے سات سمندروں کا فاصلہ ہو مگر پہلا قدم اٹھایا تو پھر یہ فاصلہ اچانک سمٹ جاتا ہے اورمنزل اپنے پاؤں تلے محسوس ہوتی ہے۔منزلیں بہادروں کے پاؤں کے ساتھ چپکی پڑی ہوتی ہیں۔مگر تنومند انسان کو اگر اپنی محنت اور ہمت پر بھروسہ ہو۔اگر آج ملک کے حالات خراب ہیں تو کیا ہوا۔یہ درست ہوں اور ضرور ہوں گے۔ سری لنکاکو اس دہشت گردی کے ماحول سے نکلنے کے لئے چالیس سال لگے تھے۔مگر آج وہ ڈیفالٹ کر چکاہے۔ڈھائی تین کروڑ کی آبادی دوبارہ سے  اپ لفٹ ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں تو بائیس کروڑ کی افرادی قوت ہے ہم کیوں نہ ان خراب حالات کو پیچھے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھیں گے۔ ہم نے ڈیفالٹ تو نہیں کیا او رنہ امید ہے کہ ہم ڈیفالٹ میں جائیں گے۔کیونکہ پاکستان اس طرح کے بہت سے نازک موڑسے ایک کے بعد ایک کر کے گزرا ہے اور گزرتا ہی چلا گیا ہے اور اب اگر اسے کسی اور طرح کوئی اور موڑ ستا رہا ہے تو وہ بھی گزر جائے گا۔ قوموں کی زندگی میں اس طرح کے کئی موڑ آتے ہیں۔اگر آج ہم سخت حالات سے گزر رہے ہیں تو کیاہوا جن کو قرض دیا وہ ہم سے اوپر چلے گئے ہم بھی امیدرکھیں کہ اوپرہی اوپر جائیں گے۔