حادثات اور ذمہ داریاں 

اخبار میں اس وقت کئی حادثات کی خبریں زیر نظر ہیں جن میں ایک طرف کوہاٹ میں مدرسے کے بچوں کی کشتی کو پیش آنے والا حادثہ ہے تو دوسری طرف  لسبیلہ بس حادثہ۔کوہاٹ تاندہ ڈیم میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں مزید گزشتہ روز  مزید20شہید افراد کی لاشیں نکال لی گئیں‘  جس سے سانحہ میں شہداء کی تعداد51 ہوگئی ہے جبکہ ریسکیو آپریشن بدستور جاری ہے اور مبینہ طور پر زیر آب دو طلباء کی لاشوں کو تلاش کیا جارہاہے  سانحہ کے پہلے روز 11 طلباء کی نعشیں برآمد کی گئی تھیں۔اور پانچ طلباء کو زخمی حالت میں نکالا گیا تھا۔آپریشن کے دوسرے روز 20 طلباء کی لاشیں بھی برآمد کی گئیں۔ گزشتہ روزمزید 19 طلباء اور ایک ملاح کی لاش بھی برآمد ہوئی۔مقامی دینی مدرسے العربی الاسلامیہ میرباش خیل کے 56طلبا اور کشتی ملاح گزشتہ روز تاندہ ڈیم کے پانی میں ڈوب گئے تھے.۔سرچ آپریشن میں فوج اور کوہاٹ و پشاور کے غوطہ خوروں نے حصہ لیا۔کشتی ڈوبنے کے اس حادثے میں شہید ہونے والے طلبا کی عمریں 8 سے 14 سال کے درمیان تھی جو مدرسے کے مہتمم  کے ہمراہ اتوار کی علی الصبح پکنک منانے کیلئے تاندہ ڈیم گئے تھے۔دوسری طرف  لسبیلہ میں مسافر کوچ کو جو حادثہ پیش آیا تھا اور کوچ میں آگ لگ گئی تھی اس میں 40 افراد کے جاں بحق  ہوئے تھے۔اس حادثے کی تفصیلات کے مطابق گاڑی راستے بھر ہچکولے کھاتی رہی اور سواریوں نے ڈرائیور کو بھی کہا کہ گاڑی ٹھیک نہیں۔ اس پر ڈرائیور نے مالک سے فون پر بات کی اور مالک نے خراب گاڑی پر ہی سفر جاری رکھنے کو کہا۔ دونوں حادثات انتہائی افسوسناک ہیں اس کے ساتھ قیمتی جانوں کا ضیاع مدنظر رکھتے ہوئے صرف انکوائری آرڈرز تک محدود نہیں رکھنی چاہئے ضروری ہے کہ روڈ سیفٹی کے حوالے سے قاعدے قانون کا نفاذ یقینی بنایا جائے دوسری جانب کشتیوں میں گنجائش کے مطابق سواریوں اور وزن کے حوالے سے قواعد  کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ یہ تو حادثات ہیں جن کا سد باب ضروری ہے، دوسری طرف ایک اور رجحان جو آج کل پروان چڑھا ہے وہ  حادثات کی لایؤ کوریج ہے جس سے  منع کر دیا گیا ہے۔ پھر بھی سوشل میڈیا پراس کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔اور جہاں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو بجائے اس کے لوگ جان بچانے کی کوششوں پر توجہ دیں، موبائل نکال کر ویڈیو بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو بھی پہلے پہنچے وہ ایمبولنس گاڑیوں کے پہنچنے سے پہلے جو ممکن مدد ہو وہ فراہم کریں۔ کہیں کوئی ٹرک کسی سکول وین سے ٹکرا رہا ہوتا ہے اور معصوم بچوں کی لاشیں نظر آتی ہیں‘کہیں استانیوں کی موت کی خبریں ہوتی ہیں‘کہیں کوئی ڈمپر دسیوں کاروں رکشوں اور ویگنوں کو کچل کر جا رہا ہوتا ہے تو کہیں کوئی گاڑی ریلوے کراسنگ پر ریل کی زد میں آتی دکھائی یا سنائی دیتی ہے۔ اور سڑکوں پر ٹریفک جام تو اب اتنی عام خبر ہو گئی ہے کہ اب اسے دیکھے بغیر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کراچی کی کسی مصروف شاہراہ پر کار سواروں کا کیا حشر ہو رہا ہوگا کہ جنہوں نے کاریں اور دیگر سواریاں اس لئے لی تھیں کہ کام پر اور واپس گھر پہنچنے کے لئے بسوں اور ویگنوں میں دھکے نہ کھانے پڑیں مگر اب بے چارے سڑک کے بیچوں بیچ پھنسے اُس وقت کو کو س رہے ہیں کہ جب انہوں نے کار لینے کی غلطی کی تھی۔اب سڑکوں کا یہ حال ہے کہ یہ ہر شہر او رشہر کی اپروچ کی سڑکیں دو رویہ کر دی گئی ہیں اور نہ صرف دو رویہ ہیں بلکہ ان کو تین تین چار چار لین بھی کر دیا گیا مگر اس کے باوجود بھی ٹریفک کا حال پتلا ہی ہے۔ اور تو اور ہم چھوٹے سے شہر کے باسی ہیں مگر جب بھی ہم شہرسے باہر جاتے ہیں واپسی پر ہمیں تقریباً دو یا تین کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے کبھی کبھی تو تین تین گھنٹے لگ جاتے ہیں۔یہ وہ سڑک ہے کہ جہاں کبھی ایک وقت میں دو گاڑیاں بھی مشکل سے کراس کر سکتی تھیں مگر آج چار چار گاڑیاں بیک وقت ساتھ مل کر گزر سکتی ہیں۔جب ہم نے کبھی ٹریفک جام کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ مگر آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ٹریفک جام نہ ہوتی ہو۔ بڑے شہروں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔مسئلہ بالکل سادہ سا ہے کہ آپ تھوڑا سا صبر کا مظاہرہ کریں توسب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی جلد از جلد منزل پر پہنچنے کی دوڑ میں ہے تاہم اس طرح وہ خود بھی وقت پر نہیں پہنچ پاتا اور دوسروں کا راستہ بھی کھوٹا کرتا ہے۔اور جو ریلوے کراسنگ پر حادثات پیش آتے ہیں وہ بھی اسی تیزی اور بے صبری کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ ریلوے لائنوں کی لمبائی اور دونوں جانب سے کراسنگ کو دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان سب کراسنگ پرگیٹ لگائے جائیں اور ان پر چوکیدار رکھے جائیں۔اس لئے کہ بعض کراسنگ تو ویرانوں میں ہیں اسی لئے ان کراسنگ پر لکھا جاتا ہے کہ یہاں کوئی چوکیدار نہیں ہے اس لئے یہاں سے کراس کرتے وقت احتیاط کریں۔مگر ہماری تیزی ہمیشہ ہمارے لئے حادثات اور قیمتی جانوں کا ضیاع بنتی ہے۔اور حادثے کے بعد ہم ریلوے کے محکمے کو کوس رہے ہوتے ہیں مگر کوئی بھی اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ہمار ے میڈیا کو بھی بجائے محکموں کو کوسنے کے عوام کو سکھانا چاہئے کہ ہمیں ایسی گاڑیوں میں ہر گز نہیں بیٹھنا چاہئے جو پہلے سے بھری ہو۔ اس طرح اوولوڈ ہونے سے گاڑیوں کوزیادہ حادثات پیش آتے ہیں۔ سڑکوں اور ریلوے کراسنگ پر کس طرح احتیا ط کرنی چاہئے اور سڑک پر چلتے ہوئے سڑک کے نشانات کا احترام کرنا چاہئے۔ اسی طرح ہم حادثات سے بھی بچ سکتے ہیں اور  بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے بھی۔روڈ سیفٹی وہ اہم عنصر ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لسبیلہ حادثے میں جو گاڑی سڑک پر آئی تھی کہتے ہیں کہ اسے ایک مرتبہ پہلے بھی ٹریفک پولیس کی طرف سے جرمانہ کیا گیا تھا کہ یہ گاڑی سڑک پر چلنے کے قابل نہیں تو پھر کس طرح یہ گاڑ ی دوبارہ سڑک پر آگئی اس حوالے سے مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے اور بحیثیت مجموعی گاڑیوں کی فٹنس کے حوالے سے قواعدو ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کی صورت میں حادثات کا سدباب کیا جا سکتا ہے دیگر ممالک میں سڑک پر ایسی کوئی گاڑی نہیں آسکتی جسے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری نہ ہو اور فٹنس سرٹیفیکیٹ کا اجراء بہت تحقیق کے بعد کیا جاتا ہے اس لئے ان ممالک میں حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے ہاں جان لیوا بیماریوں سے زیادہ افراد حادثات میں مرتے ہیں۔