انسانی سمگلنگ اورپر خطر راستے کا انتخاب

اطالوی ساحل کلابیریا کے قریب کشتی ڈوبنے کے واقعے میں تقریباً 60 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔اتوار کے روز جب ریسکیو آپریشن جاری تھا تب ڈوبنے والی کشتی کے چند لکڑی کے ٹکڑے تیرتے ہوئے ساحل پر آگئے‘کشتی میں سوار 150 افراد (اگرچہ ریسکیو اہلکارتعداد اس سے زیادہ بتا رہے ہیں)میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘پانی سے نکالی جانے والی لاشوں میں ایک نومولود کی لاش بھی شامل ہے‘ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ساحل پر کمبل میں لپٹے ٹھٹھرتے نظر آئے وہ اس وقت اپنے مستقبل کے حوالے سے جس قدر بے یقینی کا شکار تھے اتنا شاید وہ یہ خطرناک سفر شروع کرنے سے قبل بھی نہیں ہوں گے۔چھوٹے سے اطالوی قصبے کروٹون کے قریب چٹانوں سے ٹکرا کر ڈوبنے والی کشتی نے لامپیدوسا نامی جزیرے تک پہنچنے کے لئے جس راستے کا انتخاب کیا وہ کلابیرین روٹ کہلاتا ہے اور یہ تارکین وطن افراد کی جانب سے استعمال بحیرہِ روم میں استعمال کئے جانے والے دیگر راستوں سے مختلف ہے‘وہ روایتی راستے انسانی سمگلنگ کے لئے بدنام ہیں۔ ان راستوں پر اب اطالوی سرحدی محافظوں کی جانب سے سخت پولیسنگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے تارکینِ وطن افراد کے چھپ کر اٹلی میں داخل ہونے کے امکانات تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ سمگلر اور ہجرت کرنے والے افراد اب کلابیرین روٹ کا انتخاب کرتے ہیں جیسا کہ اس بدقسمت کشتی نے کیا فلاحی اداروں کے مطابق اس حقیقت کے باوجود کہ یہ راستہ پرخطر ہے، یہاں سے گزرنے والی کشتیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ یہ سفر ترکیہ سے شروع ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اور ان میں چھپ جاتے ہیں۔عموماً ان کشتیوں میں 100 سے 150 افراد کو سوار کرلیا جاتا ہے‘ یہاں وہ کئی دنوں تک ہولناک حالات کا سامنا کرتے ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا بھی بہت کم فراہم کی جاتی ہیں جبکہ انہیں بیت الخلاء کی بہتر سہولت بھی میسر نہیں ہوتی‘ درحقیقت اس حوالے سے رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سفر کے دوران ان تارکینِ وطن افراد کے پاس سمندری پانی میں چینی ملا کر پینے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔یہ کشتیاں یونانی جزیروں کے گرد چلتی ہیں اور آخرکار اٹلی کے کلابیرین علاقے اور کروٹون جیسی ساحلی چوکیوں تک پہنچتی ہیں اگر ان کی قسمت اچھی ہو اور وہ آدھی رات کے بعد کسی پہر یہاں پہنچیں تو ان غریب، پریشان حال افراد کا یہ انسانی کارگو اطالوی اہلکاروں کی نظروں میں آئے بغیر اٹلی میں داخل ہوجاتا ہے‘اس کے برعکس بدقسمت کشتیاں سمندر میں ہی حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کشتی میں سوار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں حکام کی جانب سے پکڑے جانے پر ان لوگوں کے بہتر مستقبل کا خواب ہمیشہ کیلئے چکناچور ہوجاتا ہے؛طالبان حکومت کی وجہ سے ملک سے فرار ہونے والے ایک افغان مہاجر نے کہا کہ اس نے کشتی پر جن حالات کا سامنا کیا ویسے خراب حالات اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے‘لیکن تارکینِ وطن کو پیش آنے والی ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے بھی لوگ اپنی قسمت آزمانے سے باز نہیں آتے‘ اب تارکینِ وطن کیلئے جانے والی کئی کشتیاں ان راستوں سے گزرتی ہیں جبکہ تباہ شدہ کشتیوں کا ملبہ کلابیرین کے ساحلِ سمندر پر قطار میں موجودنظر آتا ہے‘یہ صورتحال تشویش ناک ہے کہ پاکستانی اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ ان حالات سے بچ نکلنے کے لئے اس جیسے خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر بھی آمادہ ہیں‘ یہ بیرونِ ملک جانے کا کوئی سستا طریقہ بھی نہیں ہے کیونکہ سمگلر بالغ شخص کیلئے 10 ہزار جبکہ بچوں کیلئے ساڑھے 4 ہزار ڈالر کا معاوضہ وصول کرتے ہیں‘وہ لوگ جو حکام کی نظروں میں آئے بغیر سمندر پار پہنچ جاتے ہیں وہ پکڑے جانے کے مسلسل خوف میں غیرقانونی طریقے سے زندگی گزارتے ہیں اور اٹلی میں سخت ترین ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ خالی آنکھوں اور تاثرات سے عاری چہروں کے ساتھ روم یا اٹلی کے دیگر شہروں میں سیاحوں کو چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرتے ہیں یہ ہرگز ویسی زندگی نہیں ہوتی جس کے خواب انہوں نے دیکھے تھے۔