روس یوکرین جنگ اور چین کو دستیاب راستے

چین کیلئے روس یوکرین جنگ بڑے معاشی فوائد کا ذریعہ بھی بنا ہے مگر اس نے اسے بڑی آزمائش سے بھی دوچار کردیا ہے۔چین کا خیال تھا کہ جنگ جلد ختم جائے گی، روس کی تیز فتح مغربی اتحاد کیلئے تزویراتی ضرب ہوگی اور چین کسی نقصان یا آزمائش سے محفوظ رہے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اب اس کی کوشش ہے کہ تنازعہ کے بڑھنے سے پہلے ہی حل تلاش کیا جائے ورنہ یہ ممکنہ طور پر خود روس میں سماجی سیاسی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔پچھلے سال فروری میں شروع ہونے والے روس یوکرین جنگ نے عالمی سیاست میں بھونچال برپا اور بہت سے ریاستوں کے تزویراتی حسابات کا شیرازہ بکھیر دیا۔ چین کیلئے بھی ایک کڑی آزمائش بن کر سامنے آیا۔ روس یوکرین چین کے صدر شی جن پنگ اور چین کو خدشہ ہے اگر روس یوکرین جنگ طول پکڑ گئی تو یہ مستقبل میں اس کے معاشی، جغرافیائی اور سیاسی مفادات کیلئے بارودی سرنگ کا کام دے گی۔چین خود کو بڑے تنازعوں اور جنگوں سے بچاتے ہوئے خاموشی سے معاشی طور پر بڑی عالمی طاقت بننے کیلئے کوشاں تھا۔ ایک طرف امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ اپنے گہرے اقتصادی روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جنوب میں کافی اثر و رسوخ برقرار رکھتا ہے اور دوسری طرف روس کے ساتھ اپنی جامع سٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بناکر وہ عالمی طاقت کے طور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا تھا مگر اب وہ اپنے بنیادی سٹریٹجک اور اقتصادی مفادات پر روس یوکرین جنگ جھٹکے کے نتائج محدود کرنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق چینی صدر آنے والے چند مہینوں میں ماسکو کا دورہ کریں گے۔ جنگ کی برسی سے قبل روس کے اعلی سفارت کار وانگ یی نے ماسکو کا دورہ کیا۔ جس کے بعد جنگ کی برسی پر چین نے جنگ کے خاتمے کیلئے ایک 12 نکاتی امن منصوبہ جاری کیا جس سے اس تنازع کی طوالت کے نتائج بارے چین کی تشویش ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم چین نے ساتھ ہی پالیسی میں توازن دکھاتے ہوئے بنیادی طور پر یوکر ینی علاقے کو ضم کرنے کے روسی دعوؤں کو مسترد کیا اور اعادہ کیا کہ تمام ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کو موثر طریقے سے برقرار رکھا جانا چاہئے،چین کے منصوبے میں سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنے اور مغربی پابندیاں ہٹانے کے روسی مطالبات کی بازگشت بھی تھی۔ تاہم مغربی خدشات کے برعکس امن تجویز میں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔روس یوکرین جنگ سے چند ہفتے قبل سی جن پنگ اور روسی صدر پیوٹن نے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے تھے جس میں چین اور روس کے درمیان ایک ایسے لامحدود تعاون کا اعلان کیا گیا تھا جس میں کوئی شعبہ ممنوع نہیں ہے۔ ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ستمبر میں شی اور پوٹن کے درمیان آخری ملاقات کے دوران، دونوں رہنماؤں نے روسی گیس کو چین تک پہنچانے کے لئے ایک نئی پائپ لائن پر معاہدے کا اعلان کیا۔جب جنگ طول پکڑ گئی تو مغربی اتحاد کی جانب سے معاشی و تجارتی پابندیوں اور برآمدی کنٹرول کی وجہ سے روس ٹیکنالوجی کے ذرائع، جیسے سیمی کنڈکٹرز، اور اپنے قدرتی وسائل کے گاہک کے طور پر بیجنگ پر زیادہ انحصار پر مجبور ہوگیا اور جب مغرب سے روسی توانائی کی برآمدات کی مانگ کم ہوگئیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے روسی تیل، گیس اور دیگر اشیا ء کی درآمدات کے لئے انتہائی منافع بخش سودے حاصل کیے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے چین نے روس کو سفارتی اور اقتصادی مدد فراہم کی ہے۔ مغربی اتحاد کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں کے باوجود چین کے ساتھ روس کی باہمی تجارت 2021 میں 147 بلین ڈالر سے 2022 میں 190 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعرات کو 141 ممالک نے روس سے غیر مشروط طور پر یوکرین سے اپنی فوج نکالنے اور جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ روس کے ساتھ صرف چار دیگر ممالک نے اس قرارداد کو مسترد کیا مگر بھارت اور چین سمیت 47 ممالک نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔ گزشتہ دسمبر میں مشرقی بحیرہ چین میں دنوں کی مشترکہ بحری مشقیں بھی ہوئیں۔ بیجنگ نیٹو میں توسیع کے حوالے سے روسی تحفظات کی تائید کرتا ہے اور کچھ اطلاعات آئی ہیں کہ وہ روس کو فوجی امداد اور تجارتی ڈرون جیسی دوہری استعمال کی مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔چین کے پاس وقت کم ہے۔ یوکرین میں جنگ تیز ہونے کا امکان ہے۔ روس کے صدر پیوٹن طویل، شدید اور نہ ختم ہونے والی جنگ کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کیلئے یہ جنگ ایک ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ روس اب نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تعیناتی، ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری اور نئی جوہری آبدوزیں شامل کرکے اپنی جوہری قوتوں کو بڑھانے پر زیادہ توجہ دے گا۔تاہم ایک ایسے وقت میں جب چینی معیشت کو متعدد محاذوں پر تناؤ اور ملک کے اندر ناقص سرمایہ کاری، آبادی میں اضافے کے دباؤ اور کورونا وائرس کے سبب سست اقتصادی ترقی کا سامنا ہے وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھارہا ہے۔ اگر وہ جنگ میں روس کی براہ راست عسکری مدد اور حمایت فراہم کرے گا تو چین کے خلاف مغربی پابندیاں اور برآمدی کنٹرول سخت ہوسکتے ہیں جس سے اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اگرچہ اب تک چین زیادہ تر امریکی اور یورپی پابندیوں سے بچاہوا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی اتحادی ممالک میں اس کے ساتھ رویہ سخت ہو رہا ہے۔ روس اور چین کی طرف سے بیک وقت یوکرین اور تائیوان کو لاحق متوازی خطرات نے یورپ اور ایشیا میں امریکہ کی سرکردگی میں مغربی اتحاد کو مضبوط بنادیا ہے۔ روس یوکرین جنگ میں چین کی پالیسی نے دنیا بھر میں اس خدشے کو مزید گہرا کر دیا ہے کہ چین تائیوان پر بھی ایسا ہی حملہ کر دے گا چنانچہ امریکہ اور اس کے حلیف تائیوان کے ساتھ سیاسی مشغولیت اور فوجی مدد بڑھاچکے ہیں۔امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ بیجنگ اب ماسکو کو مہلک فوجی امداد فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے جس کے نتائج عالمی امن کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔