روس یوکرین سمجھوتے کیلئے چین کا منصوبہ

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سمجھوتے کیلئے کامیاب ثالثی کے بعد چین اب روس اور یوکرین جنگ روکنے اور سمجھوتہ کروانے کیلئے بھی کوششیں کررہا ہے تو کیا چین یہاں کامیاب ہوسکے گا؟اگرچہ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ چین کے صدر ژی جن پنگ اپریل یا مئی میں روس جائیں گے مگر اب شی جن پنگ ممکنہ طور پر آگلے ہفتے روس کا دورہ کرنے جارہے ہیں جس میں وہ اپنے ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے جنگ بندی اور صلح پر بات کریں گے۔ایک خبر کے مطابق شی جن پنگ روس یوکرین جنگ کے بعد پہلی بار صدر زیلنسکی سے بھی جلد بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امکان ہے کہ اس براہ راست بات چیت سے چین امن عمل میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔گزشتہ ماہ چین کے اعلی سفارت کار وانگ یی نے ماسکو کا دورہ کیا تاکہ اس دورے اور مجوزہ امن منصوبہ کی تفصیلات طے کی جاسکیں۔ چین روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات اور تصفیہ کے لئے اپنا سفارتی، سیاسی اور اقتصادی اثر ورسوخ استعمال کرنا چاہتا ہے اور یہ اس سلسلے میں کسی بھی ملک سے زیادہ کردار ادا کرنے کی حیثیت رکھتا ہے۔بیس روز پہلے چین نے یوکرین روس جنگ کے خاتمے اور امن کیلئے بارہ نکاتی منصوبہ پیش کیا جس میں جنگ بندی اور روس کے خلاف مغربی پابندیوں کا خاتمہ سب سے اہم ہیں۔ان کے علاوہ چین نے روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز، جنگ بندی، روس کے خلاف مغربی پابندیوں کے خاتمے، جوہری تنصیبات کی حفاظت کو یقینی بنانے، عام شہریوں کے انخلا کے لئے محفوظ راہداریوں کے قیام اور اناج کی برآمدات کیلئے محفوظ راہداریوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ چین کے امن منصوبے میں تمام ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کی موثر ضمانت اور سرد جنگ کی ذہنیت کے خاتمے کے موقف پر بھی زور دیا گیا ہے۔منصوبے میں تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے،تنا ؤبڑھانے سے گریز کرنے، بتدریج کشیدگی میں کمی، خواتین، بچوں اور تنازعات کے دیگر متاثرین کے تحفظ، شہریوں اور شہری تنصیبات
 کو نقصان سے بچانے، جنگی قیدیوں کے بنیادی حقوق کے احترام، جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے کے خلاف، روس پر یکطرفہ پابندیوں اورزیادہ سے زیادہ دباؤکی حکمت عملی چھوڑنے اور یوکرین میں تنازعات کے بعد تعمیر نو کا ذکر کیاگیا ہے۔چین نے اس امن منصوبہ میں غیر جانبداری دکھانے اور ہر فریق کی خوشی و اطمینان کے نکات شامل کیے ہیں۔ اگرچہ اس نے اب تک یوکرین میں روسی مداخلت کو حملہ کہنے اور روس کی مذمت کرنے سے اجتناب کیا ہے، روس پر مغربی پابندیوں پر تنقید کی ہے اور اس کے تیل اور قدرتی گیس کا بائیکاٹ نہیں کیا ہے تاہم اس نے اب تک یوکرین جنگ میں پیوٹن کی براہ راست حمایت بھی نہیں کی ہے۔روس اور یوکرین دونوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں۔روسی وزارت دفاع نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لئے چین کے منصوبے کی حمایت کرتے کہا ہے ہم چین سے متفق ہیں کہ سلامتی کونسل کے علاوہ کسی بھی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں غیر قانونی ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق ہم چین کی جانب سے یوکرین کا تنازعہ پرامن طریقے سے حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی مخلصانہ خواہش کو سراہتے ہیں اور ہم مذاکرات اور سیاسی اور سفارتی ذرائع سے اپنے خصوصی فوجی آپریشن کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے تیار ہیں تاہم امن کیلئے یوکرین میں نئی علاقائی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔یوکرین کے صدر ولادی
 میر زیلنسکی نے کہا کہ وہ بیجنگ کے پیش کردہ 12 نکاتی امن منصوبے کے کچھ حصوں پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں تاہم انہوں نے یوکرین کی سرزمین سے روسی فوجیوں کے مکمل انخلا، تمام جنگی قیدیوں کی رہائی، یوکرین کے لئے حفاظتی ضمانتیں اور روسی جنگی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ایک ٹریبیونل کی تشکیل دینے جیسے مطالبات کیے ہیں۔روس کے مطالبات یہ ہیں کہ یوکرین اپنی غیرجانبدار حیثیت ثابت کرنے کیلئے نیٹو سے دور رہے، اپنی فوج کا حجم کم کردے، کریمیا کو روس کا حصہ مان لے اور ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپوریزہیا کو روس کے علاقے یا آزاد ریاستیں تسلیم کرلے تو وہ جنگ بند کردے گا۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ یوکرین، جارجیا، فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے، نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کردے، پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھوانیا سے اپنی افواج اور پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ سے میزائل نظام ہٹادے اور 1991 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفین دوجارک نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے چین کے مجوزہ منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مگر امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو نے چین کے امن منصوبے کو روس نواز قرار دیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کے بقول چین کے پاس زیادہ ساکھ نہیں ہے کیونکہ وہ یوکرین پر غیر قانونی حملے کی مذمت نہیں کر سکا ہے۔چین نے کہا ہے یہ مسئلہ مذاکرات ہی کے ذریعے حل ہوسکتا ہے اور وہ اس کیلئے کوشاں تھا اور رہے گا۔امریکہ سمجھتا ہے یوکرین کی جنگ میں روس کی فتح سے نیٹو کی ساکھ کو دھچکا لگے گا اور روس کے علاقائی اور عالمی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا جس کا نقصان یورپ کو ہوگا۔چین بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی اتحاد روس کو میدان جنگ میں شکست دے یا معاشی طور پر حد درجہ کمزور کردے۔ اس لیے اس کی خواہش ہے کہ روس کسی نہ کسی طرح یوکرین اور نیٹو ممالک کے ساتھ اپنے مسائل بات چیت سے حل کرے۔