چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے     

 یہاں تو بیروزگاری الاؤنس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الٹا بیروزگاری پرٹیکس ہی نہ لگ جائے‘چونکہ آپ بیروزگار ہیں اور پھر کیوں ہیں اس لئے آپ کو ٹیکس دینا ہوگا‘ شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ دوسروں کو کام کاج کی طرف رغبت دلانا ہو کیونکہ ہمارے بہت سے نوجوان بہت بیکار کے مشاغل میں الجھے ہوئے ہیں کہیں کرکٹ کے میچ دیکھنے پر بھی ٹیکس نہ لگے کیونکہ اس پر بھی سٹہ بازی ہوتی ہے مہنگائی کے ہاتھوں اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انسان کے لئے نہ جینا آسان ہے اور نہ مرنا‘اس شعر کے مصداق...
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے  ہمارے ایک عزیز دو چار گلیاں چھوڑ کر رہائش پذیر ہیں اس دن ہماری طرف آئے خوب گپ شپ رہی؛ چائے کا دور چلامیں نے کہا یہ تیسری بار ہے کہ میں آپ کے ساتھ آپ کا بائیک نہیں دیکھ رہا ہوں‘بمعہ اہل و عیال تو بائیک ہی پر آ جاتے‘کہیں پھر تو گم نہیں ہوگئی یا کہیں بیچ باچ دی‘ انہوں نے فخریہ کہا بائیک موجود ہے اور گھر میں کھڑی ہے میں عرض گزار ہوا آپ تو بائیک پر واک کرنے کے شوقین ہیں اس لئے پیدل واک کر کے آنے پر آپ کو دیکھا تو حیرت ہوئی‘آپ بائیک کے معاملے میں لاپروائی سے کام لیتے ہیں‘جہاں کھڑی کر دی بغیر تالا کئے وہیں کھڑی رہے گی تاوقتیکہ چور آکر لے نہ جائے انہوں نے بجا ہی کہا‘ گھر میں کھڑی ہے اور ضرورت کے وقت نکالتا ہوں۔ہم عام طور سے قریب قریب اگر کہیں جانا ہو تو پیدل نکل جاتے ہیں‘میں نے کہا جہاں تک ورزش اورچہل قدمی کرنے کا سوال ہے تو یہ اچھی بات ہے‘یہ کیا کہ بندہ ہمہ وقت بائیک  پر سوار رہے اور دو قدم پیدل بھی نہ چلے‘ایسے میں قدم اٹھانے کاطریقہ تک بھول جاتا ہے‘کہنے لگے اجی ہوش کے ناخن لیں بائیک میں پٹرول نہیں ہوتا اتنا رکھتا ہوں کہ وہ ضروری کام ہو جو بائیک کے بغیر نہ ہوتا ہو اس کو انجام دیتے ہیں‘صاحب پھر دل کا زور بھی تو نہیں ہے‘میں نے کچھ سوچنے کیلئے سر جھکا لیا‘ہمارے معاشرے کا انسان اتنا مجبور بھی نہ تھا کہ حالات کی خرابی کے کارن  نوجوانوں کے دل کا زور بھی نہ رہے ہاں گیس کے پائپ تو ہیں مگر ان میں گیس نہیں او رسروں پر تاریں جھول رہی ہیں مگر ان میں بجلی نہیں۔گویا معاشرے کا ایک جسم تو ہے مگر اس میں جان نہیں‘ایک خالی خولی شاپر ہو کہ دور سے بھرا پُرا نظر آتا ہو مگر کھولو تو اس میں کسی نے پھونک بھر دی ہوہمارے ارد گرد کایہی حال ہے پھر آئے دن اور زیادہ گرانی کا سندیسہ کانوں میں سننے کو ملتا ہے‘ بجلی مزید مہنگی ہوگئی اور پٹرول اور بھی گراں ہو چکا ہے‘ایسے میں کہ تیل پہنچ سے باہر ہو تو کون سی چیز ہماری پہنچ میں ہوگی جہاں یہ چیزیں نایاب ہوئی جاتی ہیں وہاں دل کا زور بھی تو نہیں رہتا پھر سارے کام تو دل کے زور پر ہوتے ہیں کیونکہ ہاتھوں کے ٹوٹے کام ہو جاتے ہیں مگر دل ٹوٹے تو کوئی بھی کام کہاں ہوتا ہے چولہوں میں آگ نہ ہو اور گھر میں گھور اندھیرے ہوں‘سردیوں میں بھی یہی حال تھا حالانکہ سردیوں میں بجلی کی لاگت کم ہونے سے بجلی کم استعمال ہوتی ہے ابھی سردی نے اپنے آخری حسابات ومعاملات شمارنہیں کئے مگر بجلی نہیں ہے مگر سردیوں کا کیا تذکرہ یہاں تو گرمیوں میں بھی گیس کہاں ہوتی ہے لوگوں کی آوت جاوت کم ہو چکی ہے سیرسپاٹوں کی گرم جوشی دم توڑ چکی ہے  کیونکہ پٹرول کے ایک ایک قطرے کا حساب لینا پڑتا ہے پہلے تو پٹرول پمپ پر کھڑے ہوئے اور پٹرول ڈلوانے لگے اس نے ٹینکی میں پٹرول کی نوزل رکھنے سے پہلے کہا ذرا میٹر چیک کر لیں زیرو پر ہے۔ہم پھر نہیں دیکھتے تھے۔ بس ٹھیک ہے یار ٹھیک ہے جانے دو مگر اب تو گرانی نے کچھ ایسی بے اعتباری مچا دی ہے کہ جو پٹرول ڈالے خواہ سو کا ہو یا تین ہزار کا وہ پٹرول بوتھ پر لگے میٹر کو اس وقت تک دیکھتا ہے کہ وہ زیرو سے اٹھ کر سو روپے تک نہ پہنچے کیا پتا پٹرول ڈالا کہ نہیں‘کہیں ایسا نہ ہو راستے میں اس بے پروائی کی بھگتان کرنا پڑے اب تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا پھر قدم قدم کے نقشِ پا کو دیکھنا ہوگا کہ ہمارے تو تلوے جلے جاتے ہیں‘ایسا تو نہیں کہ ہمارے خود کے کفِ نقشِ پا بھی سلگتے ہوں۔اگر ایسا ہے تو گزار لی ہم نے یہاں یہ زندگی۔وہ زندگی کہ بندہ چلے تو اس کی کھونچیں ہی کٹی ہوئی ہوں اور وہ قدم رکھ سکنے کے قابل ہی نہ ہو‘حالات کی درستی کے انتظار میں ہیں اور جانے کب سے ہیں اور پھر کب تک رہنا ہے۔گھی پٹرول آٹادال روز افزوں مہنگے ہوئے جاتے ہیں۔