گھریلو کاشتکاری 

ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں تقریباً نصف لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی سے سب پریشاں ہیں لیکن اپنے گھروں میں سبزیاں اُگا کر اور مرغیاں پال کر سب اپنی آمدنی بڑھا سکتے ہیں۔گھروں کے صحن میں یا پیچھے، نیچے یا چھت پر اگر سبزیاں اُگائی جائیں اور مرغیاں یا بکرے ڈربے میں پالے جائیں تو یہ نہ صرف سبزی اور چھوٹے گوشت کی ضروریات پورا کرتے ہیں بلکہ پیسے بچانے اور آمدنی بڑھانے کا بھی آزمودہ نسخہ ہے۔یہ صوبے کے پہاڑی علاقوں خصوصا مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی ایجنسیوں میں عموما لوگ یہ کرتے ہیں۔ اسے صوبے کے باقی حصوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔دیہات میں، جہاں مکانات کشادہ ہیں، موسمی سبزیاں گھر کے اندر یا باہر اُگانا ممکن ہوتا ہے تاہم شہروں میں، جہاں  اضافی جگہ دستیاب نہیں ہوتی، سبزیاں برتنوں، گملوں یا ڈبوں وغیرہ میں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔یہ کچن گارڈن نہ صرف صحت کے لئے فائدہ مند ہیں کیوں کہ یہ تازہ اور خالص پیداوار دیتے ہیں اور ان کیلئے جسمانی مشقت کرنی پڑتی ہے بلکہ ان کی اضافی پیداوار مارکیٹ میں فروخت کرکے آمدنی بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔اگر ہم اپنے گھر کے صحن، چھت پر کیاریوں میں یا گملوں میں ہی مختلف سبزیاں اُگائیں تو ہم خود بھی خالص اور تازہ سبزیاں کھاسکتے ہیں، اپنے پڑوسیوں کو بھی دے سکتے ہیں اور اضافی بازار میں فروخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح ہمارے کچن کا بجٹ کم سے کم 50 فیصد کم ہوسکتا ہے۔ یہ ایک اچھا مشغلہ اور آمدنی دینے والی سرگرمی ہے۔ اسے تھوڑے مقدار میں شروع کریں اور رفتہ رفتہ بڑھاتے جائیں۔ نوشہرہ میں اپنے قیام کے دوران چند سال قبل اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ہم نے بھی سبزیاں اُگائیں اور ہم نے اور پڑوسیوں نے کافی فائدہ لیا۔حکومت اور این جی اوز لوگوں کو معیاری سبزیوں کے بیج، کیڑے مار ادویات، کھاد اور رہنمائی فراہم کر کے اس رجحان میں اضافہ کرواسکتی ہے۔اس طرح ہم گھر میں مرغیاں پال سکتے ہیں۔ پہلے آپ چھوٹے یا درمیانے سائز کا پنجرہ  بنوا لیں اور آٹھ دس دیسی مرغیوں سے کام شروع کریں۔ جلد ہی آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس بڑا پنجرہ اور پچاس سے زیادہ مرغیاں ہوں گی۔ یہ روزانہ اوسطا ًچالیس انڈے دیں گی۔ ان میں سے چلیں آپ پندرہ انڈے روزانہ خود استعمال کریں تو یہ کم سے کم ساڑھے چار سو روپے روزانہ اور چودہ ہزار روپے کی بچت ہوگی۔ آپ انڈوں کا سالن بنایا کریں یا کبھی کبھی مرغی کا گوشت استعمال کریں تو اس سے آپ کے کچن بجٹ کو کم سے کم مزید دس ہزار کی بچت ہوگی۔ اس طرح  آپ اگر فالتو انڈے بیچ دیا کریں تو یہ روزانہ آٹھ سو روپے اور ماہانہ چوبیس ہزار کی آمدنی دے گی۔ سب سے بڑا فائدہ یاد رکھیں یہ ہوگا کہ آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو کھانے کے لیے خالص دیسی انڈے اور گوشت دستیاب ہوگا۔یہ گھریلو کاشتکاری شہری علاقوں کے چھوٹے گھروں میں بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے جیسے چھتوں پر یا گملوں میں بھی سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لئے روشنی، ہوا، دوائیوں اور شدید موسم سے حفاظت کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر حکومتوں کی جانب سے اس سے لاپروائی کی وجہ سے ہم گندم بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔خیبر پختونخوا کی زرعی پالیسی کے مطابق زرعی شعبے کا بنیادی مقصد غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اور غربت کا خاتمہ ہے، لیکن حکومتوں کی طرف سے لاپرواہی اور زراعت اور صنعت/منافع پر مبنی نجی شعبے کے لیے ناکافی بجٹ مختص کرنے کے نتیجے میں  یہ شعبہ پسماندہ اور کسانوں کی غربت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ صوبے کی مجموعی پیداوار کا 21 فیصد حصہ زراعت سے ملتاہے اور صوبے کی تقریبا ً70 فیصد آبادی کا انحصار اس پر ہے لیکن اس شعبے کا بجٹ پورے  ترقیاتی بجٹ کا دوفیصد سے کم ہی ہوتا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے ہر بندہ پریشان ہے۔ ایسے میں غریب لوگ گھروں میں کاشتکاری، باغبانی اور جانوروں کی افزائش کرکے اپنی مشکلات کم اور زندگی آسان بنا سکتے ہیں۔ایک دوست نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ میں نے تھر سے چند بکرے بکریاں خریدیں۔ ان کی افزائش کی اور انہیں بعد میں بیچ کر بہت منافع کمایا۔ میں سرکاری نوکری کا انتظار کیوں کرتا جب میں اس گھریلو کاروبار سے بہت زیادہ کما سکتا ہوں۔ایک دوسرے دوست چین کے دورے پر گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ چین کی اقتصادی خوشحالی کی ایک وجہ وہاں گھریلو زراعت اور کاروبار کی ثقافت بھی ہے‘ انکے بقول وہ وہاں کی گھریلو زراعت سے بہت متاثر ہوئے۔ "میں نے پچھلے سال چین کا دورہ کیا۔ ہم نے سڑک اور ٹرین کے ذریعے کئی شہروں اور دیہی علاقوں کا سفر کیا۔ میں نہ صرف شاہراہوں کے دونوں طرف لہلہاتے فصلوں کو دیکھ کر حیران ہوا۔ وہاں گھروں، دفتروں اور سڑکوں کے کنارے زیادہ تر پھل دار درخت ہوتے ہیں اور کوئی غیر پھل دار/ زہریلا درخت نہیں ہوتا جیسا کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر پایا جاتا ہے۔ لیکن جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کی زبردست گھریلو کاشتکاری کی روایت تھی۔ تقریبا ہر گھر میں سبزیاں اُگائی جاتی ہیں۔ جن گھروں میں اس کے لیے جگہ نہیں ہوتی وہاں برتنوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ درانتی اور کدال کے ساتھ بوڑھے لوگ اپنے کھیتوں اور گھروں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانیوں کو چین کے باشندوں سے سیکھنا چاہئے اور ملکی زراعت کو ترقی دینے کے لئے ان کے ماڈل پر عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں بھی اپنے گھروں، دفتروں، سڑکوں کے کنارے پھل دار درخت لگانے چاہئیں‘ حکومت مفت پودے فراہم کرے۔ ہمیں گھروں میں سبزیاں، پھل اُگانے اور جانور نہیں تو کم سے کم ڈربوں میں مرغیاں ہی پالنی چاہئیں یہ واقعی ایک طویل المدتی منصوبہ ہو گا۔ ہمیں اپنی آنے واکی نسلوں کو ایک صحت مند، خوشحال پاکستان حوالہ کرنا ہوگا اور اس کیلئے گھریلو کاشتکاری کی ثقافت ہمیں چین کی طرح اپنانا ہوگی۔